سمندری حیات کو آکسیجن کہاں سے ملتی ہے، وہ دریافت جس نے سائنسدانوں کے اندازے غلط ثابت کیے

کئی کان کنی کی کمپنیاں سمندر کی تہہ میں موجود ان دھاتوں کو نکالنے کا ارادہ رکھتی ہیں جس سے سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ آکسیجن پیدا کرنے کے اس عمل میں خلل پڑ سکتا ہے
ڈارک آکسیجن
Getty Images
اس دریافت سے قبل یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سورج کی روشنی کے بغیر آکسیجن پیدا نہیں ہو سکتی

سمندر کی تاریک تہہ میں موجود دھاتوں سے بننے والی آکسیجن کی کھوج نے سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔

دنیا کی تقریباً آدھی آکسیجن سمندر سے آتی ہے۔ اس دریافت سے قبل خیال کیا جاتا تھا کہ یہ آکسیجن سمندر میں موجود پودے فوٹو سنتھیسز کے ذریعے بناتے ہیں۔

فوٹو سنتھیسز وہ عمل ہے جس میں پودے سورج کی روشنی، پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو استعمال کرتے ہوئے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔

اس عمل کے لیے سورج کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سمندر کے اندر پانچ کلومیٹر کی گہرائی میں جہاں سورج کی روشنی داخل نہیں ہو سکتی وہاں قدرتی طور پر موجود دھات کے ٹکڑے آکسیجن پیدا کر رہے ہیں۔

دھاتوں کے یہ ٹکڑے سمندری پانی سے مل کر ایک قدرتی کیمیائی ردِعمل پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں سمندر کا پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم ہو جاتا ہے۔

کئی کان کنی کی کمپنیاں سمندر کی تہہ سے دھاتوں کو نکالنے کا ارادہ رکھتی ہیں جس سے سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ آکسیجن پیدا کرنے کے اس عمل میں خلل پڑ سکتا ہے اور ایسی سمندری حیات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے جن کی بقا ان سے پیدا ہونے والی آکسیجن پر منحصر ہے۔

سکاٹش اسوسی ایشن برائے میرین سائنس کے سرکردہ محقق پروفیسر اینڈریو سویٹ مین بتاتے ہیں کہ انھوں نے سنہ 2013 میں پہلی مرتبہ سمندر کی تہہ میں مکمل اندھیرے میں آکسیجن کی ایک بڑی مقدار پیدا ہوتے دیکھی تھی۔

’میں نے اس چیر کو بالکل نظر انداز کر دیا کیونکہ مجھے سکھایا گیا تھا کہ آکسیجن فوٹوسنتھیسز کے ذریعے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔‘

بی بی سی نیوز کو انھوں نے بتایا کہ ’بالآخر مجھے احساس ہوا کہ میں کئی برسوں سے اتنی بڑی ممکنہ دریافت کو نظر انداز کر رہا تھا۔‘

پروفیسر اینڈریو اور ان کے ساتھیوں نے ہوائی اور میکسیکو کے درمیان گہرے سمندر کے ایک بڑے علاقے میں تحقیق کی جو ان دھاتی ٹکڑوں سے ڈھکا ہوا ہے۔

دھات کے یہ ٹکڑے اس وقت تخلیق پاتے ہیں جب سمندری پانی میں تحلیل شدہ دھاتیں کسی سیپ یا ملبے پر جمع ہو جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں لاکھوں سال لگتے ہیں۔

ان دھات کے ٹکڑوں میں لیتھیم، کوبالٹ اور تانبے جیسی دھاتیں شامل ہیں جو بیٹریاں بنانے کے کام آتی ہیں۔ اسی لیے بہت سی کان کنی کی کمپنیاں ایسی ٹیکنالوجی تیار کر رہی ہیں جس کے استعمال سے ان دھاتوں کو سمندر کی تہہ سے نکالا جا سکے۔

لیکن پروفیسر اینڈریو کا کہنا ہے کہ ان دھاتوں سے بننے والی آکسیجن سمندری کے فرش پر موجود حیاتیات کو زندگی بخشتی ہیں۔

نیچر جیو سائنس کے جریدے میں شائع ہونے والی یہ دریافت گہرے سمندر میں کان کنی کے مجوزہ منصوبوں کے خطرات کے بارے میں نئے خدشات سے آگاہ کر رہی ہے۔

سائنسدان یہ معلوم کرنے میں کامیب رہے ہیں کہ دھات کے یہ ٹکڑے بالکل کسی بیٹری کی طرح کام کرتے ہوئے آکسیجن بناتے ہیں۔

پروفیسر اینڈریو اس بارے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’اگر آپ بیٹری کو سمندری پانی میں ڈالتے ہیں، تو یہ پھڑکنے لگتی ہے، یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ برقی رو دراصل سمندری پانی کو آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تقسیم کر دیتی ہے (اسی وجہ سے بلبلے بنتے ہیں)۔‘

ان کے خیال میں دھات کے ٹکڑے بھی قدرتی بیٹری کے طور پر یہ کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بالکل کسی ٹارچ کی بیٹری کی طرح ہے۔

’آپ ایک بیٹری ڈالتے ہیں تو ٹارچ روشن نہیں ہوتی۔ آپ دو ڈالتے ہیں اور آپ کو ٹارچ روشن کرنے کے لیے لائٹ جتنا وولٹیج مل جاتا ہے۔ اسی طرح سمندر کی تہہ میں بکھرے یہ دھات کے ٹکڑے بھی ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں اور متعدد بیٹریوں کی طرح ایک ساتھ مل کر کام کر تی ہیں۔‘

محققین نے اس تھیوری کو آزمانے کے لیے آلو کے سائز کے ان دھاتی ٹکڑوں جمع کیا اور لیبارٹری میں ان کا مطالعہ کیا۔

ان تجربات کے دوران سائنسدانوں نے ہر دھاتی گانٹھ کی سطح پر وولٹیج کی پیمائش کی جس سے ان میں موجود برقی رو کی طاقت کا پتہ چلا۔ انھوں نے پایا کہ یہ لگ بھگ ایک ڈبل اے (AA) سائز کی بیٹری جتنا وولٹیج پیدا کرتی ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق دھات کے یہ ٹکڑے باآسانی اتنی برقی رو پیدا کرتے ہیں جس سے سمندری پانی کے مالیکیولز کو تقسیم یا الیکٹرولائٹس کا عمل مکمل کیا جا سکے۔

محققین کا خیال ہے کہ ایسا عین ممکن ہے کہ اس طرز کا کوئی عمل چاند یا دوسرے سیاروں پر ہو رہا ہو جس سے وہاں آکسیجن پیدا ہو رہی ہو اور وہاں کا ماحول جینے کے لائق ہو۔

سمندر کے جس حصے میں یہ دریافت ہوئی ہے وہاں پہلے ہی سمندر میں کان کنی کرنے والی متعدد کمپنیوں نے اپنی تلاش کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ کمپنیاں ان دھاتوں کو نکال کر زمین تک لانے کے لیے ٹیکنالوجی تیار کر رہی ہیں۔

یو ایس نیشنل اوشیانوگرافک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن نے خبردار کیا ہے کہ سمندری تہہ میں کان کنی وہاں موجود حیاتیات کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔

44 ممالک سے تعلق رکھنے والے 800 سے زائد سائنسدانوں نے سمندر میں کان کنی کی سرگرمیوں کو روکنے اور اس سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی خطرات سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں۔

آئے دن گہرے سمندر میں کوئی نئی دریافت ہوتی رہتی ہے۔ اکثر یہ تک کہا جاتا ہے کہ گہرے سمندر سے زیادہ تو ہم چاند کی سطح کے بارے میں جانتے ہیں۔

حالیہ دریافت سے پتہ چلتا ہے کہ دھات کے یہ ٹکڑے وہاں موجود زندگی کو سہارا دینے کے لیے آکسیجن فراہم کر رہے ہیں۔

یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے میرین بائیولوجسٹ پروفیسر مرے رابرٹس ان سائنسدانوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے سمندری تہہ میں کان کنی کے خلاف پٹیشن پر دستخط کیے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’پہلے ہی کافی شواہد موجود ہیں کہ گہرے سمندر کے ان دھاتوں کی کان کنی سے وہ ماحولیاتی نظام تباہ ہو جائے گا جسے ہم بمشکل سمجھتے ہیں۔‘

’(دھاتوں کے) یہ فیلڈز ہمارے سیارے کے اتنے بڑے علاقوں پر پھیلے ہوئے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ آکسیجن کی پیداوار کا ایک اہم ذریعہ ہو سکتے ہیں گہرے سمندر میں کان کنی کی اجازت پاگل پن ہو گا۔‘

پروفیسر اینڈریو مزید کہتے ہیں ان کے خیال میں یہ تحقیق کوئی ایسی نہیں ہے جو کان کنی کو ختم کر دے۔

’(لیکن) ہمیں مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم گہرے سمندروں میں ممکنہ حد تک ماحول دوست طریقے سے کان کنی چاہتے ہیں تو ہمیں اس تمام معلومات اور مستقبل میں حاصل ہونے والے ڈیٹا کی ضرورت پڑے گی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.