’بوگی مین‘ اور ’ویمپائر‘: یوکرین اور روس ایک دوسرے کے خلاف کون کون سے ڈرون استعمال کر رہے ہیں؟

ڈرونز کو جام کرنے والے انٹینے ڈرونز اور ان کو چلانے والے آپریٹرز کے درمیان کمیونیکیشن کو 75 فیصد تک بلاک کر دیتے ہیں۔ لیکن زالا لانسیت ڈرونز کی خاص بات یہ ہے کہ اگر ایک بار یہ اپنے ہدف تک پہنچ جائیں تو انھیں اسے نشانہ بنانے کے لیے آپریٹر کی ضرورت نہیں پڑتی۔
یوکرین، روس، ڈرون
BBC
ایک سال قبل ایسی ٹیکنالوجی یوکرین میں موجود نہیں تھی لیکن اب یہ یہاں بھی عام ہے

یوکرینی فوج کے ٹرک کے ڈیش بورڈ پر ایک بلیک باکس کسی طلسماتی شے کی طرح رکھا ہوا ہے اور جیسے ہی کوئی روسی ڈرون ہمارے سروں کے اوپر سے گزرتا ہے اس وقت اس کی سکرین پر روشنیاں جگمگانے لگتی ہیں۔

ہم خارخیو کے باہر اور جنگ کے اگلے محاذ کے قریب ایک سڑک سے انتہائی برق رفتاری سے گزر رہے ہیں۔

جنگ میں حصہ لینے والے دیگر فوجیوں کی طرح اس ٹرک میں سوار لوگ بھی اس بلیک باکس کو تقریباً پوجتے ہیں اور انھوں نے اسے ’شوگر‘ کا نام دیا ہے۔ یہ باکس انھیں نہ نظر آنے والے خطروں سے خبردار کرتا ہے۔

اس فوجی ٹرک کی چھت پر مشروم کی طرح نظر آنے والے تین انٹینے نصب ہیں جن میں کسی بھی ڈرون کا ناکارہ بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔

اس گاڑی کو دیکھیں تو آپ کو ایک طرح کی سکیورٹی کا احساس ہوتا ہے کیونکہ اس میں آسمان پر گھومنے والے روسی ڈرونز کے حملوں سے بچنے کی صلاحیت موجود ہے۔

فوجی ٹرک کی فرنٹ سیٹ پر 53 سالہ سینیئر لیفٹننٹ یوہینی بیٹھے ہیں اور بلیک باکس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس نے ابھی زالا لانسیت روسی ڈرونز کو ڈیٹیکٹ کیا ہے۔‘

زالا لانسیت ایک روسی ڈرون ہے جو اپنی لانگ رینج اور اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کے لیے مشہور ہے۔

میں نے لیفٹننٹ یوہینی سے پوچھا کہ ’کیا اس لیے ہم اتنی برق رفتاری سے گاڑی چلا رہے ہیں۔‘

مجھے معلوم تھا کہ گاڑی پر نصب انٹینے زالا لانسیت ڈرون کو ناکارہ نہیں بنا سکتے۔

یوکرینی نیشنل گارڈ کی خارتیہ بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے لیفٹننٹ یوہینی نے جواب دیا کہ ’ہم ابھی ان (روسی ڈرونز) کے ترجیحی اہداف میں شامل نہیں، لیکن پھر بھی بہتر یہی ہو گا کہ ہم رفتار کم نہ کریں کیونکہ صورتحال ابھی بھی خطرناک ہے۔‘

ڈرونز کو جام کرنے والے انٹینے ڈرونز اور انھیں چلانے والے آپریٹرز کے درمیان کمیونیکیشن کو 75 فیصد تک بلاک کر دیتے ہیں۔ لیکن زالا لانسیت ڈرونز کی خاص بات یہ ہے کہ اگر ایک بار یہ اپنے ہدف تک پہنچ جائیں تو انھیں اسے نشانہ بنانے کے لیے آپریٹر کی ضرورت نہیں پڑتی۔

یوکرینی ماہرین کا کہنا ہے کہ زالا لانسیت ایک ایسا طاقتور ڈرون ہے جسے صرف اور صرف بکتر بند گاڑیوں اور فوجی دستوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

ایک سال قبل ایسی ٹیکنالوجی یوکرین میں موجود نہیں تھی لیکن اب یہ یہاں بھی عام ہے۔ ڈرون یوکرین اور روس کے درمیان جنگ میں اہمیت اختیار گئے ہیں، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب یوکرین کو روسی فوج کی پیش قدمی روکنے میں دشواری کا سامنا ہے۔

یوکرین کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے جس کا مستقبل تاریک ہے، جس میں منٹوں میں اس کے فوجیوں، تیز رفتار سے چلنے والی گاڑیوں اور گڑھوں میں مورچہ بند دستوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

یوکرینی فوج ان حملوں کا مقابلہ اپنے ڈرونز کے ذریعے کر رہی ہے اور اگلے محاذوں پر اس کے درجنوں ڈرونز موجود ہیں۔

ایک یوکرینی فوجی نے مجھے بتایا کہ ہر روز یہ ڈرونز تقریباً 100 فوجیوں کو ہلاک کرتے ہیں۔

حملے سے قبل ڈرون سے لی گئی آخری تصاویر میں روسی فوجیوں کو گھبراتے ہوئے اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

یوکرینی بریگیڈ کے 37 سالہ ڈرون کمانڈر کہتے ہیں کہ اگر آپ نے کسی عمارت میں پناہ نہیں لی ہوئی تو چاہے روسی فوجی ہوں یا پھر یوکرینی، دونوں کے ہی زندہ بچنے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔

آئنیاس کے نام سے مشہور ڈرون کمانڈر کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ جنگ میں ایک جدت ہے۔ 2022 میں یہ صرف ایک انفینٹری کی جنگ تھی لیکن اب یہ روس اور ہمارے ڈرونز کے درمیان جنگ میں بدل گئی ہے۔‘

یوکرین کو گولہ بارود کی کمی کا سامنا ہے اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ان ہتھیاروں کی فراہمی بھی سست روی کا شکار ہے۔

لیکن ڈرون بنانے والے اتحادیوں نے یوکرین کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اس برس یوکرین کو ایک کروڑ ڈرون فراہم کریں گے۔

روس بھی میدانِ جنگ میں پُرانی ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے لڑائی کے طریقے میں جدت لا رہا ہے۔ اس جدت کی قیمت ایک یوکرینی گاؤں نے ادا کی جو کہ روسی سرحد سے تقریباً 10 کلومیٹر دور واقع ہے۔

یوکرین، روس، ڈرون
BBC
روس بھی میدانِ جنگ میں پُرانی ٹیکنالوجی کی مددس سے اپنے لڑائے کے طریقے میں جدت لا رہا ہے

اس گاؤں پر گلائیڈ بموں سے حملہ کیا گیا تھا۔ ان بموں کو ’ڈمب بم‘ بھی کہا جاتا ہے جن میں پنکھے لگے ہوتے ہیں اور انھیں سیٹلائٹ نظام کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔

ان بموں کا وزن تین ہزار کلو تک ہو سکتا ہے اور جب یہ کسی طیارے سے فائر کیے جاتے ہیں تو یوکرینی فوجی دستوں پر گرتے ہیں اور قریبی علاقوں پر بھی تباہ کن اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔

اس گاؤں سے نقل مکانی کرنے والی خاتون نے ہمیں بتایا کہ: ’ہر طرف ہر چیز جل رہی تھی۔ یہ اتنی خوفناک صورتحال تھی کہ تہہ خانے سے نکلنا بھی ناممکن تھا۔‘

ڈرون کمانڈر آئنیاس نے ہماری ملاقاتیں ڈرون ٹیموں سے کروائیں جو کہ لپتسی نامی گاؤں کے قریب اگلے محاذ پر موجود ہیں۔ وہاں موجود ہر گاڑی پر ڈرون کو ناکارہ بنانے والے آلات نصب تھے، لیکن یہ آلات آپ کو صرف اس وقت تک ہی محفوظ رکھ سکتے ہیں جب تک آپ گاڑی کے اندر موجود ہیں۔

ان گاڑیوں سے نکل کر گھومنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اس لیے ہم خود کو بچانے کے لیے آئیناس کے پیچھے پیچھے ملبے کے ڈھیر سے گزر رہے تھے۔

بالآخر ہم ایک تباہ شدہ بلڈنگ میں زیرِ زمین بنائی گئی ایک فوجی بیس تک پہنچ گئے جہاں ہمارا یاکوت اور پیٹرو نامی ڈرون آپریٹرز سے تعارف کروایا گیا۔

یہاں ہر طرف ڈرون موجود تھے، یہاں تک کہ کھانا بنانے کے لیے استعمال ہونے والے فرائی پین کے برابر میں بھی ایک ڈرون رکھا ہوا تھا۔

یوکرین، روس، ڈرون
BBC
ڈرون کمانڈر آئنیاس نے ہماری ملاقاتیں ڈرون ٹیموں سے کروائیں جو کہ لپتسی نامی گاؤں کے قریب اگلے محاذ پر موجود ہیں

یہ دونوں آپریٹرز ایک مہینے میں سینکڑوں ایسے ڈرونز دیکھتے ہیں جن کا استعمال صرف ایک مرتبہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ڈرون اڑتے ہیں اور اپنے ہدف کی طرف جا کر پھٹ جاتے ہیں۔

ان آپریٹرز کا پہلا انتخاب ہمیشہ ’فرسٹ پرسن ویو‘ (ایف پی وی) ڈرون ہوتے ہیں جن میں ایک سے دو کلو دھماکہ خیز مواد اور کیلیں نصب کی جا سکتی ہیں۔

آئیناس کہتے ہیں کہ ’ہم یوکرین میں انھیں سیلبریشن ڈرونز کہتے ہیں۔ جنگ سے قبل انھیں شادی کی تقریبات اور پارٹیوں میں فلم بندی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔‘

اس دوران میری نظر یاکوت پر تھی جو کہ ایک ڈرون اڑانے میں مصروف تھے۔ پیٹرو نے بتایا کہ ’یاکوت کو اس علاقے میں موجود ہر دلدل اور درخت کا علم ہے۔‘

اس دوران ایف پی وی ڈرون ایک عمارت کے قریب گیا جہاں کسی روسی فوجی کے چھپے ہونے کا اندیشہ تھا۔ یہ ڈرون ایک کھلی ہوئی کھڑکی سے عمارت میں داخل ہوا اور پھٹ گیا، اسی کے ساتھ ہی ڈرون آپریٹر کے سامنے نصب سکرین بھی ساکت ہو گئی۔

اس وقت ایک اور یوکرینی ڈرون ٹیم ایک روسی بکتر بند گاڑی کو نشانہ بنانے میں مصروف تھی اور اچانک انھوں نے اپنے ہدف کو نشانہ بنایا اور اس منظر کو ایک اور سرویلینس ڈرون نے اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔

ڈرون آپریٹرز ہمیشہ اسی جگہ پر موجود ہوتے ہیں اور دن رات ڈرونز اڑا رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایک ٹیم پانچ، پانچ دن تک ایک ہی جگہ پر موجود رہتی ہے اور اس دوران انھیں آرام اور عمارت سے باہر نکلنے کا وقت بھی کم ہی ملتا ہے۔

لیکن گلائیڈ بم ان کے لیے بھی خوف کی علامت بن چکا ہے۔ گذشتہ ہفتے ہی ایک ایسا بم ان کے قریب گرا تھا اور اس سے پوری عمارت دہل کر رہ گئی تھی۔

میں نے پیٹرو سے پوچھا کہ اگر یہ گلائیڈ بم سیدھا عمارت پر گرا ہوتا تو کیا ہوتا؟ اس نے جواب دیا: ’ہم مارے جاتے۔‘

ہمیں آئیناس نے ایک ہفتے پُرانی ایک ویڈیو ریکارڈنگ بھی دکھائی: ایک روسی فوجی اہلکار باہر گھوم رہا تھا اور ایک یوکرینی ڈرون یونٹ اسے نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔

اس روسی اہلکار کو ڈرون کی موجودگی کا علم ہوگیا اور وہ قریبی سڑک کے پاس موجود ایک گڑھے میں چھپ گیا۔ اچانک ہی ڈرون نیچے کی طرف آیا اور اس نے سیوریج پائپ کے ذریعے اپنے ہدف کو دیکھا اور پھر دوسری جانب سے اس گڑھے کے قریب جا کر پھٹ گیا۔

آئیناس روسی فوجی اہلکار کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’اس کا جسم متعدد ٹکڑوں میں تقیسم ہو گیا تھا۔‘

کچھ دنوں بعد روسی فوجیوں کی پوزیشن سے کچھ ہی دور تعینات ایک یوکرینی کمانڈر نے مجھے بتایا کہ جہاں تک ڈرونز سے لڑی جانے والی جنگ کی بات ہے تو اس میں یوکرین آگے ہے، لیکن روس کو گلائیڈ بموں کی دستیابی کے سبب زیادہ کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

ڈرون اُڑانے والی یوکرینی ٹیم نے مجھے بتایا کہ انھیں جدت اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے روس پر سبقت حاصل ہے اور ان کے پاس موجود آلات برق رفتاری سے روسی ڈرونز کو جام کر دیتے ہیں۔

تاہم روس کے پاس یوکرین کے مقابلے میں چھ گُنا زیادہ ڈرونز موجود ہیں۔

ہم ابھی بات ہی کر رہے تھے کہ ایک روسی ایف پی وی ڈرون کو ہماری پوزیشن کا علم ہو گیا اور وہ ہمارے قریب آنے لگا۔ اس دوران تمام روشنیاں بجھا دی گئیں، تمام فون بند کردیے گئے اور وہاں موجود یوکرینی فوجیوں نے مکمل خاموش اختیار کرلی۔

یہ روسی ڈرون تقریباً ہمارے سروں کے اوپر موجود تھا اور ہم نے اپنی سانسیں روک رکھی تھیں۔ یہ ایک لمحہ صدیوں پر محیط تھا اور کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی جگہ سے ہل سکے۔

پھر یہ ڈروان واپس لوٹ گیا، شاید اسے کسی اور ہدف کی تلاش تھی۔

یوکرین کے پاس موجود سب سے بڑے ڈرون کا نام ’ویمپائر‘ ہے، اس میں چھ پنکھے لگے ہوتے ہیں اور اس کا سائز کافی کی میز جتنا بڑا ہوتا ہے۔

ہم نے ایک مرتبہ پھر آئیناس سے ملاقات کی اور وہ ہمیں گولوں کی گھن گرج میں ایک اور ڈرون ٹیم کے پاس لے گئے جو ڈرون میں ایک بم نصب کرنے میں مصروف تھے۔

آئیناس کا کہنا ہے کہ ’دس کلو وزن والے اس ڈرون کو روسی فوج بوگی مین کہتی ہے۔‘ اس میں نصب کیا گیا بم اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ کسی روسی پوسٹ کو بھی اُڑا سکتا ہے۔

جب یہ یوکرینی فوجی اپنے کام میں مصروف تھے تو وہاں اوپر ایک روسی ڈرون اڑان بھر رہا تھا، جیسے ہی یہ قریب آتا یوکرینی فوجی دوڑ کر عمارت کے تہہ خانے میں گھس جاتے۔

اس کے بعد بغیر کسی وارننگ کے ہم نے یوکرینی ڈرون کے تھرمل کیمرے میں تین گلائیڈ بموں کو گرتے ہوئے دیکھا۔ یہ بم یوکرینی فوج کی پوزیشن سے تقریباً آدھا کلومیڑ دور گرے لیکن پھر بھی ہمیں اس کے جھٹکے محسوس ہوئے اور ہماری عمارت کے در و دیوار لرز گئے۔

یوکرین کے اتحادی سمجھتے ہیں کہ وہ یوکرین کو ڈرون فراہم کرکے ان کی عسکری طور پر مدد کر رہے ہیں لیکن یہ کوئی چندہ دینے جیسا یا فلاحی کام نہیں۔

برطانوی فوج کے سربراہ ایڈمرل سر ٹونی رڈاکن کہتے ہیں کہ برطانیہ کی افواج یوکرین سے یہ سیکھ سکتی ہیں کہ انھوں نے مستقبل کی جنگیں کیسے لڑنی ہیں۔

منگل کو ایک تقریر کے دوران ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی فوج کے پاس بھِی ڈرونز کی علیحدہ بٹالین ہونی چاہییں۔

آئیناس کہتے ہیں کہ انھیں ان تمام باتوں کا علم ہے۔ ہم جیسے ہی اس مقام سے آگے بڑھنے لگے تو ایک روسی ڈرون ہماری طرف آیا اور ہم برق رفتاری سے تاریکی کی طرف دوڑے۔

آئیناس نے ہمیں ٹرک میں بتایا کہ: ’کوئی بھی اس طرح سے جنگ نہیں لڑ رہا بلکہ وہ ہم سے سیکھ رہے ہیں۔ آنے والی جنگوں کا یہی مستقبل ہو گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.