’کام کے دباؤ‘ سے 26 سالہ لڑکی کی موت، انڈین رہنماؤں کا تحقیقات کا مطالبہ

image

انڈیا میں ایک نوجوان چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اینا سبیسچن پیرائیل کی مبینہ طور پر کام کے دباؤ سے ہونے والی موت پر سیاستدانوں نے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق سابق یونین منسٹر اور بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنما راجیو چندراسکیر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ 26 سالہ لڑکی کی والدہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کی جائیں۔

والدہ نے الزام لگایا تھا کہ ان کی بیٹی اینا سبیسچن پیرائیل کی موت کام کے دباؤ کی وجہ سے ہوئی ہے جو پونے میں ارنسٹ اینڈ ینگ نامی کمپنی میں بطور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کام کرتی تھیں۔

والدہ نے کمپنی کے چیئرمین راجیو میمانی کو بھی ای میل بھی بھیجی ہے اور کہا ہے کہ کمپنی کا طرز عمل ان کی بیٹی کی موت کا ذمہ دار ہے۔

بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنما راجیو چندراسکیر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ اینا سبیسچن کی والدہ کی جانب سے کمپنی میں استحصال اور غیرمحفوظ ماحول کے حوالے سے عائد الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

کانگریس جماعت کے رکن پارلیمان سکیت گوکھالے نے ایکس پر یونین لیبر سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ کمپنی میں ملازمین کن حالات میں کام کرتے ہیں، اس حوالے سے تحقیقات کرائی جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ لڑکی سمیت ہر وہ شخص جو کمپنی کے ماحول کے باعث تکلیف میں ہے انہیں انصاف ملنا چاہیے۔

 انتہا پسند جماعت شیو سینا کی رکن پارلیمان پرینکا چتورویدی نے سوال اٹھایا کہ کیا امریکہ اور یورپ میں کام کے طویل اوقات مسلط کرنے پر کمپنیاں قانونی جانچ پڑتال سے بچ سکتی ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ ان ممالک میں ملازمین کے ایسا برتاؤ ممکن نہیں ہے۔

کانگریس پارٹی کے رہنما ششی تھرور نے کہا ہے کہ وہ پارلیمان کے آئندہ اجلاس میں اس حوالے سے قانون سازی پر زور دیں گے تاکہ پرائیویٹ اور سرکاری دفاتر میں کام کے طے شدہ اوقات ہونے چاہیے جو روزانہ آٹھ گھنٹے سے متجاوز نہ ہوں۔

اینا سبیسچن جنوبی مغربی ریاست کیریلا کے شہر کوچی سے تعلق رکھتی تھیں۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے مارچ 2024 میں پونے میں واقع ارنسٹ اینڈ ینگ کمپنی کام کرنا شروع کیا تھا۔ چند ماہ بعد 20 جولائی کو دل کا دورہ پڑنے سے اینا سبیسچن کی موت واقع ہو گئی۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.