خاتون صحافی نے ایک ذہنی مریض قاتل سے 30 سال قبل ہونے والے دوہرے قتل کا اعتراف کیسے کروایا؟

عنبر کورنیجو کے کیس نے اگست 2020 میں چلی میں سنسنی پھیلا دی تھی۔ آٹھ دنوں تک لاپتہ رہنے کے بعد 16 سالہ نوجوان لڑکی کی باقیات بستامینتے کے گھر سے ملی تھیں۔

انتباہ: اس تحریر میں موجود تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

’آپ کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں میرے پاس بتانے کے لیے کچھ ہے۔۔۔۔ پلیز لکھیے: ازابیل ہینوجوسا اور اُن کا بیٹا ایڈورڈو پائز۔‘

یہ جملہ ایک ذہنی مریض اور قاتل ہیوگو بستامینتے نے 4 اگست 2023 کو چلّی کی خاتون صحافی ایوونے ٹورو کو جیل میں انٹرویو دیتے ہوئے ادا کیا تھا۔

خاتون صحافی اپنی کتاب ’لا نینا عنبر‘ کے لیے ہیوگو کا جیل میں انٹرویو کر رہی تھیں۔ خاتون صحافی چلّی کی نوجوان خاتون عنبر کورنیجو کی موت کی تحقیقات کر رہی تھیں اور اس پر کتاب لکھ رہی تھی۔ ہیوگو نوجوان خاتون عنبر کورنیجو کو ریپ کرنے، انھیں قتل کرنے اور بعدازاں ان کی لاش کے ٹکڑے کرنے کے جرم میں جیل میں قید تھے۔

خاتون صحافی نے اُن ناموں کو نوٹ کیا جو ذہنی مریض اور قاتل ہیوگو نے انھیں بتائے تھے۔ یہ نام بتاتے ہوئے ہیوگو نے انھیں ’تحفہ‘ قرار دیا تھا۔

خاتون صحافی ٹورو کہتی ہیں کہ انھیں اس وقت اس جملے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا۔

وہ جیل میں قید ہیوگو سے صرف ایک بات جاننا چاہ رہی تھی کہ آیا انھوں نے عنبر کے علاوہ کسی اور کو بھی قتل کیا ہے یا نہیں۔

عنبر کیس تھا کیا؟

عنبر کورنیجو کے کیس نے اگست 2020 میں چلی میں سنسنی پھیلا دی تھی۔ آٹھ دنوں تک لاپتہ رہنے کے بعد 16 سالہ نوجوان لڑکی کی باقیات ہیوگو بستامینتے کے گھر سے ملی تھیں۔

عنبر بچپن سے ہی گھریلو حالات کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار تھی اور وہ ہیوگو بستامینتے کے گھر ہر ماہ کچھ پیسے لینے جاتی تھی۔

لیکن ایک دن جب وہ وہاں گئیں تو پھر کبھی واپس نہیں لوٹیں۔

جب یہ بات سامنے آئی کہ عنبر کو بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا ہے اور اس میں عنبر کی والدہ بھی ملوث ہیں تو پورے ملک میں اشتعال کی لہر دوڑ گئی۔

ہیوگو بستامینتے کا ایک خوفناک ریکارڈ تھا۔ انھیں سنہ 2005 میں ان کی سابقہ پارٹنر ویرونیکا واسکیز اور اُن کے نو سالہ بیٹے ’کوینیتو‘ کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

ہیوگو بستامینتے نے ویرونیکا کا گلا گھونٹا تھا جبکہ ان کے بیٹے کو سر پر ضرب لگا کر قتل کیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے دونوں ماں بیٹے کی لاشیں ایک بہت بڑے ڈرم کے اندر چھپا دیں اور اسے چونے، پانی اور پلاسٹر سے سیل کر دیا۔

اسی لیے انھیں ’ڈرم کلر‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔

اگرچہ ہیوگو بستامینتے کو ان جرائم کے لیے مجموعی طور پر 27 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن صرف 11 سال بعد یعنی سنہ 2016 میں وہ جیل سے پیرول پر رہا ہوئے اور اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کے لیے واپس آ گئے۔

اس کے کچھ دنوں بعد عنبر کے قتل کا واقعہ رونما ہو گیا۔

صحافی ٹورو نے عنبر کورنیجو کے کیس کو بہت باریک بینی سے دیکھا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے گہرا صدمہ ہوا کہ وہ لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہوئی، وہ لڑکی ساری زندگی مدد کے لیے پکارتی رہی تھی۔ وہ نیشنل سروس فار مائنز (سینم) کے زیر انتظام ایک پروگرام کا بھی حصہ تھی۔‘

عنبر کا قاتل ایک ایسا شخص تھا جسے جیل میں ہونا چاہیے تھا۔ تاہم ٹورو کہتی ہیں کہ ’میرا بڑا سوال تھا کہ: یہاں کیا ہو رہا ہے؟ لڑکی غیر محفوظ کیوں تھی اور ہیوگو بستامینتے آزاد کیوں تھا؟‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت میں اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ کیس ایک گہرے ادارہ جاتی مسئلے کی عکاسی کرتا ہے۔ چلی کی ریاست نے اپنا کام نہیں کیا اور یہی وہ کہانی ہے جس کو بیان کرنے کے لیے میں نے تحقیق شروع کی۔‘

اس کے بعد خاتون صحافی نے اس مقصد کے لیے چار سال وقف کر دیے۔

اس کے لیے انھوں نے عدالتی ریکارڈ کے تقریباً آٹھ ہزار صفحات کا جائزہ لیا۔

انھوں نے اپنی کتاب ’لا نینا امبر‘ میں لکھا ہے کہ اس عدالتی ریکارڈ نے انھیں ’مکمل تاریکی میں گھسیٹ لیا۔‘ اس کتاب کے سلسلے میں انھوں نے 100 سے زیادہ افراد کے انٹرویوز بھی کیے تھے۔

اس سلسلے میں انھوں نے ہیوگو بستامینتے کا بھی انٹرویو کیا تھا۔ جن سے انھوں نے رانکاگوا جیل میں جون 2023 اور جنوری 2024 کے درمیان چھ بار بات کی۔

’قاتل آپ کے سامنے‘

جب ہیوگو بستامینتے انٹرویو کے لیے راضی ہوئے تو انھوں نے صحافی سے کہا کہ وہ ان کے لیے واش روم کا سامان اور ایک کتاب کا جیل میں انتظام کروائیں۔

ہیوگو بستامینتے نے ٹورو سے ’کون ال اسیسینو فرنٹے‘ یعنی ’قاتل آپ کے سامنے‘ نامی کتاب منگوائی تھی۔

لیکن پھر بھی ہیوگو بستامینتے نے انھیں ’جاہل‘ اور ’بے غیرت‘ قرار دیتے ہوئے واپس بھیج دیا۔

صحافی ٹورو نے معذرت کے ساتھ ساتھ ہیوگو بستامینتے کو ایک نفسیاتی کتابچہ بھی بھیجا۔

ان کی تیسری ملاقات اگست 2023 میں ہوئی جب ہیوگو بستامیتنے کچھ حد تک پگھل گئے تھے اور ٹورو پر اعتماد کرنے لگے تھے۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنا ریکارڈر آن کرتیں، ہیوگو بستامینتے نے ان کا شکریہ ادا کیا کیونکہ ان کے مطابق انھوں نے اس کے ساتھ ایک ’انسان کی طرح‘ سلوک کیا تھا۔

ذہنی مریض کے نقطۂ نظر سے یہ ایک ’اچھا برتاؤ‘ تھا (ٹورو نے ایک انٹرویو کے دوران ہیوگو بستامینتے کو ناشتہ بھی دیا تھا۔)

ٹورو کا کہنا ہے کہ ہیوگو بستامینتے کے حساب سے ’میں ان کے ساتھ احترام سے پیش آئی۔‘

گفتگو کے دوران صحافی نے ان سے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ عنبر، ویرونیکا اور ان کے بیٹے کوینیٹو کے قتل کا ارتکاب کس چیز کی وجہ سے ہوا۔

’کیا آپ نے کسی اور بھی کو مارا ہے؟‘

اس تیسری ملاقات کے دوران ہی ہیوگو بستامینتے نے صحافی کو ایک ’تحفہ‘ دینے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے کہا: ’میرے پاس آپ کے لیے ایک تحفہ ہے۔۔۔ آپ کے سوال کے متعلق، لکھیں: ازابیل ہینوجوسا اور ان کا بیٹا ایڈورڈو پائز۔‘

اس جملے نے تفتیش کا رخ ہی موڑ دیا۔

ان ناموں کا کیا مطلب تھا؟ وہ کون تھے؟ وہ کہاں تھے؟ کیا ان کا عنبر کے کیس سے کوئی تعلق تھا؟

صحافی ٹورو خود سے یہ سارے سوالات پوچھتے ہوئے جیل سے نکلیں۔

انھیں واضح طور پر یاد تھا کہ انھوں نے ہیوگو بستامینتے سے پوچھا تھا کہ کیا انھوں نے کسی اور کا بھی قتل کیا ہے؟

ہیوگو بستامینتے نے کہا تھا کہ ’اس بارے میں کہیں کچھ نہیں ہے۔ مجھ پر مزید قتل کا الزام نہیں ہے۔‘

ہیوگو بستامینتے نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اوہ اچھا میں نے خرگوشوں کا شکار کیا ہے، گائے کو ذبح کیا ہے، لیکن لوگوں کا نہیں۔ اگر کیا بھی ہوگا تو میں بتاؤں گا نہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’سچ بتانا ہماری ڈیل کا حصہ نہیں تھا۔‘

ٹورو کے مطابق ’اس بات سے مجھے شک ہوا کہ شاید ہیوگو بستامینتے نے کسی کو قتل کیا ہو۔‘

بس اس ہی خیال کے ہاتھوں مجبور ہو کر انھوں نے اس معاملے کی مزید تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے جاننا تھا کہ یہ لوگ وجود بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ میں نے سِول رجسٹری میں ناموں، مقامات اور حادثات کے بارے میں پڑھنا شروع کر دیا۔‘

’ایک وقت ایسا آیا جب میں ان افراد کے ایک رشتے دار کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا زابیل ہینوجوسا اور ان کا بیٹا ایڈورڈو پائز خیریت سے ہیں؟‘

’انھوں نے مجھے جواب دیا کہ یہ لوگ تو 30 برسوں سے لاپتہ ہیں۔‘

اہم سُراغ

صحافی ٹورو نے ہیوگو سے جیل میں پانچویں ملاقات کے دوران پوچھا کہ: ’مجھے بتائیں کہ زابیل ہینوجوسا اور ایڈورڈو پائز کہاں ہیں؟‘

’لیکن وہ خاموش ہو گئے اور تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا، یہ بھی کہہ دیا کہ وہ مجھے ان افراد کا نام بتا کر پچھتا رہے ہیں۔‘

اس کے بعد کئی مہینے گزر گئے اور ٹورو کو اپنے سوالات کے جوابات نہیں مل سکے۔

ان لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو بھی صحیح طرح سے یاد نہیں تھا کہ 30 برس پہلے آخر ہوا کیا تھا۔ اس حوالے سے انٹرنیٹ پر بھی کوئی معلومات نہیں تھی کیونکہ اس مقدمے کو فراموش کر دیا گیا تھا۔

پھر رواں برس جنوری میں ٹورو کے ہاتھ ایک اہم سُراغ لگا۔ یہ دراصل ہیوگو کا 1996 میں دیا گیا ایک بیان تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ازابیل ہینوجوسا اور ایڈورڈو پائز لاپتہ ہونے سے قبل آخری بار وِلا آلمانا کے علاقے میں واقع 641 سٹریٹ پر واقع ایک گھر میں گئے تھے۔

پائز اور ہیوگو بستامینتے کی 1990 کی دہائی میں جیل میں ملے تھے اور پھر دونوں کے درمیان ملاقاتیں جاری رہیں۔

ٹورو اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ازابیل ہینوجوسا کی بیٹی نے انھیں بتایا کہ لاپتہ ہونے سے پہلے ہیوگو بستامینتے وہ آخری شخص تھے جنھوں نے ازابیل اور پائز کو دیکھا۔

ٹورو کہتی ہیں کہ ’پھر میں نے ہیوگو بستامنیتے کے برتاؤ کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ انھوں نے عنبر کو اپنے گھر میں قتل کیا اور اس کی لاش کو وہیں چھوڑ دیا۔ جب اس نے ویرونیکا اور کوئنٹیکو کو قتل کیا تو وہ ان کی لاشوں کو اپنے ساتھ نئے گھر لے گیا۔ میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہیوگو بستامینتے ان افراد کی لاشوں سے دور نہیں رہ سکتے، یہ ایک طرح سے ان کا ایک سگنیچر ہے۔‘

’میں اس بات پر قائل ہو چکی تھی کہ ازابیل اور پائز 30 برس پہلے 641 سٹریٹ پر واقع گھر کے اندر گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔‘

اعترافِ جرم

رواں برس جنوری میں پھر ٹورو نے ہیوگو بستامینتے سے جیل میں آخری ملاقات کی۔

’میں نے اسے کہا کہ تم لوگوں کو قتل کرنے کے بعد لاشیں وہیں چھوڑ دیتے ہو۔ تمنے ازابیل اور پائز کو قتل کیا اور ان کی لاشیں بھی وہیں چھوڑ دیں۔‘

ٹورو مزید کہتی ہیں کہ ’ہیوگو بستامینتے نے ان سوالات سے نگاہ چُرانے کی کوشش کی، وہ ایک پیچیدہ طرز کی گفتگو تھی۔‘

پھر کچھ دنوں بعد ہیوگو بستامینتے نے جیل کے ایک افسر کے سامنے قبول کر ہی لیا کہ اس نے 1996 میں ازابیل اور پائز کو قتل کیا تھا اور ان کی لاشوں کا پتہ بھی بتا دیا۔

چلّی میں تفتیش کاروں نے تحقیقات کے بعد دونوں افراد کی لاشیں ڈھونڈ لیں۔ اب ہیوگو کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی فہرست میں ازابیل اور پائز کا نام بھی شامل ہو چکا تھا۔

ٹورو کے لیے اس سٹوری کی تحقیقات کرنا مشکل اس لیے تھا کیونکہ اس کے لیے انھیں ایک نفسیاتی قاتل کا انٹرویو کرنا پڑا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کسی ایسے شخص کے سامنے بیٹھنا عجیب تجربہ ہوتا ہے جس کے احساسات مر گئے ہوں۔ اس شخص میں ہمدردی کے جذبات ہی نہیں، وہ جانتا ہے اپنی حالت کے بارے میں لیکن اسے یہ احساس نہیں کہ اس سب سے کتنا نقصان ہو چکا ہے۔‘

’وہ کبھی کسی کو تکلیف دینے پر نہیں پچھتایا۔ اس نے کبھی مجھے جھانسہ دینے کی کوشش نہیں کی اور نہ کوئی بہانا بنایا۔‘

ٹورو کہتی ہیں کہ ہیوگو بستامینتے نے انھیں بتایا کہ ’جب میں آئینے کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں تو ایک نفسیاتی شخص کو دیکھتا ہوں اور خود سے پوچھتا ہوں کہ: مجھے کیا ہوا ہے؟‘

صحافی کا مزید کہتی ہیں کہ جب وہ عنبر کی زندگی کے بارے میں سوچتی ہیں تو اکثر پریشان ہو جاتی ہیں۔

’مجھے یہ خیال ہی پریشان کر دیتا ہے کہ ایک لڑکی جس کی زندگی میں اس کو کبھی پیار نہیں ملا، اس کو موت بھی کتنی خوفناک تھی۔‘

’لیکن اس سب کے باوجود بھی عنبر کے دِل میں محبت کے اور دوسروں کا خیال رکھنے کے جذبات تھے۔‘

اس تحقیقات کے دوران ٹورو نے عنبر کی والدہ ڈینائس سے بھی ملاقاتیں کیں جو کہ اپنی بیٹی کی موت میں ملوث ہونے کے الزام میں قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

چلّی کے پبلک پروسیکیوٹر کے دفتر کے مطابق ڈینائس نے اپنی بیٹی کو ہیوگو بستامینتے کے گھر جانے پر راضی کیا تھا تاکہ وہ اسے قتل کر سکے۔

ٹورو عنبر کی والدہ کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’وہ ایک ایسی عورت ہے جسے اپنے گناہ کا اندازہ ہی نہیں۔ اس نے ہمیشہ عنبر کا استعمال کیا، کبھی اسے تحفظ نہیں فراہم کیا۔‘

صحافی کے مطابق ان کی تحقیقات کے سبب ازابیل اور پائز کے خاندان کو تقریباً 30 برس بعد اپنے سوالات کے جوابات ملے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحافت کیوں ضروری ہے، بعض اوقات یہ آپ کو ان حقائق تک پہنچنے میں مدد کرتی ہیں جہاں آپ کا عدالتی نظام نہیں پہنچ سکتا۔‘

لیکن قتل کی تحقیقات کے دوران ٹورو کی زندگی پر بھی منفی اثرات پڑے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں سو نہیں پاتی، مجھے اب بھی ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.