پاکستان کے لیے سات ارب ڈالرز قرض کی منظوری: مگر اس سے ایک عام پاکستانی اور ملکی معیشت کو کیا فائدہ ہو گا؟

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری دے دی ہے اور اب یہ رقم پاکستان میں آئندہ 37 ماہ کے دوران أقساط کی صورت میں ملے گی۔ اہم سوال یہ ہے کہ سات ارب ڈالر کا یہ قرض پاکستانی معیشت کے لیے کیا معنی رکھتا ہے اور اس قرض کے حصول سے کیا ایک عام پاکستانی کی زندگی آسان ہو پائے گئی؟
روزگار
Getty Images

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹیو بورڈ نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری دے دی ہے۔ سات ارب ڈالرز کے اِس قرض پروگرام کے لیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان رواں برس جولائی میں سٹاف لیول معاہدہ ہوا تھا جس کی منظوری گذشتہ رات آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے دی۔

اس منظوری کے بعد پاکستان کو جلد ہی 1.1 ارب ڈالر کی پہلی قسط آئی ایم ایف سے موصول ہو جائے گی جبکہ بقیہ لگ بھگ 5.9 ارب ڈالرز آئندہ تین سال میں پاکستان کو مختلف اقساط میں دیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے ڈھائی کروڑ ڈالر کا پہلا قرض دسمبر 1958 میں حاصل کیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک پاکستان 20 سے زیادہ مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کر چکا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنا والا پانچواں بڑا ملک ہے۔

آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر ڈائریکٹر کرسٹالینا جیورجیوا نے ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس کے بعد نجی ٹی وی چینل ’جیو‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس ایک خوشخبری ہے۔ ہم نے پاکستان کے لیے اپنا ’ریویو‘ مکمل کر لیا ہے۔ میں حکومتِ پاکستان اور پاکستان کے عوام کو مبارکباد دیتی ہوں۔‘ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ پاکستان نے معاشی اصلاحات کی ہیں جس سے معیشت میں بہتری آئی ہے۔

آئی ایم ایف کی سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے مثبت اصلاحات کی ہیں اور اب پیدوار کا گراف اُوپر کی جانب جا رہا ہے جبکہ افراط زر نیچے آ رہی ہے اور معیشت استحکام کے راستے پر گامزن ہے۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم شہباز شریف قرض پروگرام کی منظوری پر ’اطمینان کا اظہار‘ کیا اور کہا کہ ’اللہ کے فضل و کرم سے معاشی اصلاحات کا نفاذ تیزی سے جاری ہے.‘ انھوں نے آئی ایم ایف پیکیج کے حوالے معاونت فراہم کرنے والے دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اس قرض کے حصول کے لیے طے پانے والے سٹاف لیول معاہدے سے قبل پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے عائد کردہ شرائط کو پورا کرنے کی کوشش کی جس کے تحت رواں مالی سال میں ٹیکس آمدن بڑھانے، مختلف شعبوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے اور نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے جیسے اقدامات شامل تھے۔

ماہرین معیشت کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری سے پہلے پاکستان کو جن کڑی شرائط پر عمل کرنا پڑا اس کی وجہ سے ایک عام آدمی کی زندگی بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھنے اور ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئی۔ تاہم اب اہم سوال یہ ہے کہ سات ارب ڈالر کا یہ قرض پاکستانی معیشت کے لیے کیا معنی رکھتا ہے اور اس قرض کے حصول سے کیا ایک عام پاکستانی کی زندگی آسان ہو پائے گئی؟

قرض کی منظوری کاپاکستانی معیشت پر کیا اثر پڑے گا؟

روزگار
Getty Images

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے نئے قرض پروگرام کی منظوری کے بعد اس کے پاکستانی معیشت کی صورتحال پر اثرات کو ماہرین معیشت ’مثبت‘ قرار دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستانی معیشت گذشتہ ڈھائی تین سالوں میں منفی شرح نمو کا شکار رہی ہے جبکہ ملک میں زرمبالہ کے ذخائر میں کمی، ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافے، مہنگائی کی شرح میں تاریخی بلندی اور شرح سود میں اضافے کی وجہ سے بھی پاکستانی معیشت مسائل کا شکار رہی ہے۔اسی طرح معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ صنعتی یونٹوں کی پیداواری صلاحیت میں کمی سے ملک میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

تاہم اس پروگرام کی منظوری کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کے معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے یونہی محنت جاری رکھیں گے۔ پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں اضافہ خوش آئند اور معاشی ٹیم کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’اگر یونہی محنت جاری رہی تو انشا اللہ یہ پاکستان کا آخری آئی ایم ایف پروگرام ہو گا۔‘

وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس پروگرام کی منظوری سے پاکستان کی معیشت میں استحکام آئے گا جبکہ پاکستان کی موجودہ مالی سال میں 26 ارب ڈالر کی جو بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے اس سلسلے میں بھی مدد ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ یہ ملک کی معیشت کے لیے گنجائش پید ا کرے گا کہ ہم اپنے سٹرکچرل مسائل کو حل کر سکیں جو ملکی معیشت کو لاحق ہیں۔

مالیاتی اُمور کی ماہر ثنا توفیق نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اس پروگرام کی منظوری کے فوراً بعد سب سے پہلے مارکیٹ میں مثبت رجحانات جنم لیں گے، جو کہ گذشتہ کافی عرصے سے ناپید تھے۔‘ انھوں نے کہا آئی ایم ایف کی جانب سے پیسے ملنے کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہو گا اور سٹیٹ بینک کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر مارچ 2025 تک 11 ارب ڈالرز اور جون 2025 تک 13 ارب ڈالر تک اوپر چلے جائیں گے۔

ثنا توفیق کے مطابق اس پروگرام کی منظوری کے بعد پیسے آنے سے سب سے پہلے پاکستان کے بیرونی ادایئگیوں کے شعبے پر دباؤ کم ہو گا اور ملک کے پاس سرمائے کی وجہ سے داخلی طور پر مقامی بینکوں سے قرضے لینے کے سلسلے میں تھوڑا ریلیف ملے گا۔انھوں نے کہا اس پروگرام کی باقی قسطوں کے لیے شرائط میں کچھ زیادہ سختی کا امکان نہیں ہے کیونکہ نگران دور حکومت میں بہت ساری شرائط پر عمل ہو چکا ہے اور اب اس کا امکان کم ہے کہ اگلی قسطوں کے لیے بہت زیادہ سخت شرائط عائد ہوں۔

ایک عام پاکستانی کو اس سے کیا فائدہ ہو گا؟

عام آدمی
Getty Images

تاہم اہم سوال یہ ہے کہ ایک عام پاکستانی مائیکرو اکنامک استحکام اور زرمبادلہ ذخائر کے بڑھنے پر خوش ہونے سے زیادہ روزمرہ استعمال اور کھانے پینے کی اشیا پر مہنگائی اور روزگار کے کم مواقع ہونے کی وجہ سے پریشان ہے۔

گذشتہ سال مئی میں ملک میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی تاہم اس کے بعد مہنگائی بڑھنے کی رفتار میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے اور رواں برس اگست کے مہینے کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب ملک میں مہنگائی نو فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد ایک عام آدمی کو ملنے والے ریلیف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ثنا توفیق نے کہا ’اس پروگرام کی منظوری سے ایک عام فرد پر براہ راست تو کوئی اثر نہیں ہو گا اور نہ ہی فی الفور کچھ ایسا ہو گا کہ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں کم ہو جائیں تاہم اگر حکومتی معاشیپالیسیاں ایسے ہی چلتی رہیں اور معیشت سست روی سے ہی سہی مگر آگے کی جانب گامزن رہی تو مستقبل میں یقیناً اس کا فائدہ عام آدمی کو بھی ہو سکتا ہے۔ ‘

انھوں نے کہا کہ ملک میں پہلے ہی ڈالر اور روپے کی قدر میں استحکام ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ڈالر کی قدر میں بہت زیادہ کمی واقع ہو گی جس کی وجہ سے بیرون ملک سے منگوائی جانے والی اشیا جیسا کہ تیل، خوردنی تیل اور دوسری ضروررت کی چیزوں کی قیمت میں کمی ہو۔

ثنا توفیق کا مزید کہنا تھا کہ بیروزگاری سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو درآمدات کو اجازت دینی پڑے گی تاکہ صنعت کا پہیہ چل سکے اور عام لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہو سکیں۔انھوں نے کہا کہ روپے کی قدر مستحکم ہونے سے مرکزی بینک اور مانیٹری محاذ پر مدد ملے گی جس سے شرح سود میں کمی واقع ہو سکتی ہے جو کاروبار کو چلانے کے لیے سود مند ہو گی اور لوگوں کے لیے روزگار پیدا کر سکتی ہے

تاہم ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں آنے والے معاشی استحکام کا اثر براہ راست ایک عام آدمی پر بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا یہ معاشی استحکام ہی ہے کہ جو افراط زر 38 فیصد تک چلی گئی تھی وہ اب 9.6 فیصد تک آ گئی ہے۔ اُن کے مطابق اب امید ہے کہ رواں برس عام آدمی کی قوت خرید بہتر ہو گی اور قیمتوں کے بڑھنے کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔ ان کے مطابق روپے کی قدر میں بہتری سے درآمدی افراط زر میں کمی واقع ہوئی ہے، جس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک واضح کمی نظر آئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اِس کے علاوہ شرح سود میں کمی کی گنجائش پیدا ہوئی جس کے باعث مرکزی بینک نے اسے ساڑھے سترہ فیصد تک کر دیا ہے، ابھی بھی اس میں کمی کی گنجائش ہے جس سے صنعتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور سرمایہ کاری اور عام آدمیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

پاکستان کب کب آئی ایم ایف کے پاس گیا؟

آئی ایم ایف
Getty Images

پاکستان کی آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت کے بارے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک 23 پروگرام ہوئے ہیں اور پہلا پروگرام دسمبر 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے ہوا۔

اس کے بعد آئی ایم ایف پروگراموں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ سات ارب ڈالر کے موجودہ قرض سے قبل آخری بار آئی ایم ایف بورڈ نے اگست 2022 میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی کے ساتویں اور آٹھویں ریویو کے تحت پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر قرض دیا تھا۔

ایگزیکٹیو بورڈ نے جولائی 2019 میں پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی۔

آئی ایم ایف پروگرام کی تاریخ کے مطابق فوجی صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے تین پروگرام ہوئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں بننے والی پہلی حکومت کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے چار پروگرام ہوئے۔

فوجی صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شرکت کی۔

پی پی پی کی دوسری حکومت میں بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شامل ہوا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پہلی حکومت میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان نے شمولیت اختیار کی۔

بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے تین پروگراموں میں شامل ہوا تو نواز شریف کی دوسری وزارت عظمیٰ میں پاکستان نے دو آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت اختیار کی۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں دو آئی ایم ایف پروگرام ہوئے، پی پی پی کی 2008 سے 2013 میں بننے والی حکومت میں ایک پروگرام، پاکستان مسلم لیگ نواز کی 2013 سے 2018 میں حکومت میں ایک پروگرام اور پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان شامل ہوا جو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد نواز لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت نے جاری رکھا۔

جبکہ مسلم لیگ ن کے موجودہ دورِ حکومت میں یہ پہلا قرض پروگرام ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.