ملتان میں یونیورسٹی بس کی ٹکر سے طالبہ کی موت: ’لاش کئی گھنٹے سڑک پر پڑی رہی، طلبہ کے احتجاج کے بعد ہی ہسپتال لے کر گئے‘

لاش کئی گھنٹے تک سڑک پر پڑے رہنے کے بارے میں یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس ایک دوسرے کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔

’مناہل کے والدین جائے حادثہ پر پہنچے تو پولیس نے کہا کہ لکھ کر دے دو کہ مقدمہ درج نہیں کروانا چاہتے۔ اگر مقدمہ درج کرواؤ گے تو پھر سائیڈ پر کھڑے ہو جاؤ۔ ہم قانونی کارروائی کریں گے اور اس کے بعد لاش ملے گی۔‘

یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کی محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی میں بس کی ٹکر سے ہلاک ہونے والی موٹرسائیکل سوار طالبہ مناہل شعبان کے چچا محمد بابر کا، جن کی بھتیجی بائیو کمیسڑی کے چوتھے سیمسٹر کی طالبہ تھیں اور 23 ستمبر کو یونیورسٹی بس کی ٹکر سے ان کی موت ہو گئی۔

محمد بابر کا دعویٰ ہے کہ ’مناہل کی لاش کئی گھنٹے سڑک پر پڑی رہی اور یونیورسٹی کے طالب علموں کے احتجاج کے بعد اسے ہسپتال منتقل کیا گیا جو کہ انتہائی بے رحمانہ تھا۔‘

لاش کئی گھنٹے تک سڑک پر پڑے رہنے کے بارے میں یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس ایک دوسرے کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔

ملتان پولیس کے ترجمان عبدالخالق کہتے ہیں کہ واقعہ یونیورسٹی کے اندر پیش آیا لہٰذا اس سارے معاملے کو دیکھنا یونیورسٹی انتظامیہ کی ذمہ داری تھی۔

’وقوعہ پر کہا جاتا رہا کہ وائس چانسلر آ رہے ہیں جبکہ وائس چاسلر 11 بجے کے بعد پہنچے، جس کے بعد لاش کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔‘

دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس کا یہ دعوی یکسر مسترد کر دیا کہ ان کی جانب سے کوئی تاخیر کی گئی۔

یونیورسٹی رجسڑار محمدآصف نواز کا دعویٰ تھا کہ موقع پر موجود پولیس کے تفتیشی افسر یہ چاہتے تھے کہ طالبہ کے والد فیصلہ کریں کہ انھوں نے مقدمہ درج کروانا ہے یا نہیں۔ جس وجہ سے لاش تقریباً دس بج کر 55 منٹ پر یونیورسٹی سے نشتر ہسپتال لے جائی گئی تھی۔ یہ پولیس کے کوئی قانونی تقاضے تھے۔‘

’یونیورسٹی بس کے ڈرائیور نے گاڑی طالبہ کے اوپر چڑھا دی‘

پولیس ترجمان عبدالخالق کے مطابق پولیس کی درخواست کے باوجود طالبہ کے والد نے مقدمہ درج کروانے اور مدعی بننے کے لیے کوئی درخواست نہیں دی، جس وجہ سے پولیس اس واقعے کی خود مدعی بنی اور مقدمہ درج کیا۔

ملتان کے تھانہ شاہ شمس میں اس واقعے کا مقدمہ پولیس اے ایس آئی محمد صفدر کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

درج مقدمے میں کہا گیا کہ وقوعہ والے روز تقریباً صبح نو بجے بائیو کمیسڑی کی طالبہ مناہل شعبان موٹر سائیکل پر آگے جا رہی تھیں اور یونیورسٹی بس کے ڈرائیور نے پیچھے سے گاڑی ان کے اوپر چڑھا دی اور موقع سے فرار ہو گیا۔

درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ڈرائیور نے لاپرواہی اور تیز رفتاری سے بس چلا کر طالبہ کو ٹکر مار کر جرم کا ارتکاب کیا۔

رجسڑار یونیورسٹی محمد آصف نواز کے مطابق سی سی ٹی وی کیمرے سے پتا نہیں چلتا کہ غلطی کس کی ہے تاہم فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بس کا پچھلا ٹائر موٹرسائیکل کو لگا اور طالبہ کے سر کو کچلتے ہوا گزر گیا۔

ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ایک عینی شاہد، جو ملتان کی چورنگی نمبر 21 سے طالبہ کے پچھے آ رہا تھا، اس نے بتایا کہ مناہل کا ایک بیگ پیڑول کی ٹینکی پر تھا جس وجہ سے طالبہ کو مشکل پیش آ رہی تھی اور وہ موڑ کاٹتے ہوئے گھبرا گئی تھیں، جس وجہ سے حادثہ پیش آیا۔

’طلبا کے احتجاج کے بعد لاش کو ہسپتال منتقل کیا گیا‘

مناہل کے چچا محمد بابر کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی کو واقعے کی اطلاع یہ کہہ کر دی گئی کہ ان کی بیٹی کا حادثہ ہوا ہے۔

’وہ تقریباً نو بج کر چالیس یا پچاس منٹ پر یونیورسٹی پہنچ گئے تھے۔ جہاں پر پولیس، ریسکیو 1122 اور یونیورسٹی کے کچھ لوگ موجود تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مناہل کے والدین نے دیکھا کہ لاش کے اوپر موٹرسائیکل پڑی ہوئی تھا اور اس کا سر کچلا جا چکا تھا جبکہ اس کا مغز سڑک پر بکھرا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر مناہل کے والدین کے ہوش اڑ گئے تھے۔‘

محمد بابر کا کہنا تھا کہ موقع پر موجود پولیس اہلکار نے کہا کہ اگر لاش چاہیے تو لکھ کر دو کہ کوئی قانونی کارروائی نہیں کرنی۔ اگر قانونی کارروائی کرنی ہے تو پھرایک طرف کھڑے ہو جاؤ اور ہمقانونی کارروائی اور پوسٹ مارٹم کے بعد لاش حوالے کریں گے۔‘

محمد بابر کا دعوی تھا کہ یہ صورتحال تین گھنٹے تک رہی اور اس دوران یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبا و طالبات کو بھی روکے رکھا تھا۔ جس کے بعد مناہل کے والد کو لگا کہ ان کی بات کوئی نہیں سن رہا تو وہ کافی فاصلے پر جمع طلبا و طالبات کے پاس گئے اور ان کو ساری صورتحال بتائی۔

’طلبا و طالبات بپھر گئے اور اس پر احتجاج شروع کیا تو پھر فوراً لاش کو ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال پہنچایا گیا۔‘

انھوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کام تو پہلے بھی کیا جا سکتا تھا کیونکہ مقدمہ تو اب بھی مناہل کے والد کی درخواست پر درج نہیں ہوا۔ ’پھر کیوں لاش کی بےحرمتی کی گئی۔ ہم مناہل کی موت کو اللہ کی رضا سمجھ کر بھول سکتے ہیں مگر لاش کی بے حرمتی کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ یہ زخم ہمیشہ تازہ رہے گا۔‘

ملتان
Getty Images
(فائل فوٹو)

یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس کا موقف

یونیورسٹی رجسڑار محمد آصف نواز کا دعویٰ تھا کہ لاش کو سڑک کی سائیڈ پر ڈھانپا گیا تھا۔ ’میں خود اور خواتین سکیورٹی گارڈز طالبہ کے اعضا کو سڑک سے چنتے رہے تھے۔ ہم اور ساری یونیورسٹی انتظامیہ موقع پر تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مناہل کی والدہ کو خواتین سکیورٹی گارڈز سنبھال رہی تھیں۔ ’خواتین سکیورٹی گارڈز نے لاش چادر ڈال کر ڈھانپ دی تھی۔ یونیورسٹی نے مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ہم نے اس جگہ جہاں پر لاش پڑی ہوئی تھی اس کو بھی دونوں طرف سے بند کر دیا تھا۔‘

محمد آصف نواز کا کہنا تھا کہ مناہل کے والد سمجھنا چاہتے تھے کہ حادثہ کیسے ہوا۔ ’ہم ان کو لے کر کنٹرول روم میں گئے۔ وہاں پر ان کو سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گی اور یہ ہی فوٹیج پولیس کے حوالے کر دی گئی۔ جس کے بعد دس بج کر 55 منٹ پر لاش کو ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا تھا۔‘

ان کا دعویٰ تھا کہ اس موقع پر تفتیشی افسر مناہل کے والد شعبان کو بتا رہے تھے کہ اگر انھوں نے قانونی کارروائی کرنی ہے تو وہ درخواست دیں تاکہ وہ پوسٹ مارٹم کروا سکیں اور اگر انھوں نے بعد میں درخواست دی تو پھر پوسٹ مارٹم کے لیے قبر کشائی ہو گئی مگر مناہل کے والد پریشان تھے اور انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی۔‘

پولیس ترجمان عبدالخالق کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے کوئی تاخیر نہیں ہوئی۔ ’یہ یونیورسٹی انتظامیہ کا معاملہ تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ خود بھی درخواست دے سکتی تھی مگر پولیس کو کہا جاتا رہا کہ وائس چانسلر آ رہے ہیں اور وہ گیارہ بجے کے بعد پہنچے تھے۔‘

دوسری جانب مناہل کے چچا محمد بابر کا کہنا تھا کہ کون سا ایسا حادثہ ہے جس میں پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔ ’حادثے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو فی الفور ہسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ لاش کا ڈاکٹر معائنہ کر کے رپورٹ دے دیتے ہیں۔جائے وقوعہ کو پولیس محفوظ کرتی ہے، نشان لگاتی ہے، نقشہ بناتی ہے۔ مناہل کے والد کو کہا گیا کہ لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔‘

’مناہل کے والد اپنی بیٹی کو خود مختار دیکھنا چاہتے تھے‘

مناہل شعبان کا خاندان اندرونی ملتان کا رہائشی ہے اور ان کے والد برتنوں کا کاروبارکرتے ہیں۔

مناہل کی یونیورسٹی کی ایک قریبی دوست نے بتایا کہ مناہل نے جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو ان کے والد نے خود انھیں موٹر سائیکل لے کر دیا کیونکہ وہ اپنی بیٹی کو خود مختار دیکھنا چاہتے تھے۔

’موٹر سائیکل لے کر دینے سے پہلے اس کو موٹر سائیکل چلانے کی خصوصی تربیت دی تھی۔ باقاعدہ لائسنس لے کر دیا تھا۔ وہ روزانہ بہت زیادہ رش والے علاقے سے یونیورسٹی آتی جاتی تھی۔ اس کا کبھی کوئی حادثہ نہیں ہوا۔‘

طالبہ کے مطابق مناہل نے اپنے والد ہی کی حوصلہ افزائی پر یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ ’مناہل کی ہر بات اپنے والد سے شروع ہوتی اور والد پر ختم ہوتی تھی۔ وہ بتاتی تھی کہ اس کے والد میں اس کی جان ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.