سوڈان میں خانہ جنگی: ’میں نے کہا میری بیٹیوں کو چھوڑ دو اور مجھے ریپ کر لو‘

بی بی سی نے فوج اور آر ایس ایف کے درمیان لڑائی میں پھنسی خواتین کے ریپ کے ہولناک واقعات کے بارے میں سنا۔
سوڈان
BBC/Mohanad Hashim

17 ماہ تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کی وجہ سے سوڈان میں حالات خطرناک حد تک خراب ہو چُکے ہیں۔

میں نے خواتین کے ایک ایسے گروہ سے بات کی جو دارالحکومت کے ایک حصے ام درمان کے کنارے فوج کے زیرِ انتظام علاقے کے ایک بازار تک پہنچنے کے لیے چار گھنٹے کا پیدل سفر کرتیں ہیں اور وجہ یہ ہے کہ یہاں پہنچنے کے بعد اُنھیں کھانے پینے کی اشیا سستی مل جاتی ہیں۔

یہ خواتین دارالسلام سے آئی تھیں جو پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے زیر قبضہ علاقہ ہے۔

انھوں نے مُجھے بتایا کے اب اُن کے شوہر گھر سے باہر نہیں نکلتے کیونکہ آر ایس ایف کے جنگجو نہ صرف اُنھیں مارتے پیٹتے ہیں بلکہ اُن سے وہ پیسے بھی لے جاتے ہیں جو وہ سارا دن محنت مزدوری کر کے اپنے گھر بار کے لیے کماتے ہیں، یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ انھیں حراست میں لے لیا جاتا ہے اور ان کی رہائی کے لیے پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

ان میں سے ایک نے مُجھے بتایا کہ ’ہم یہ سب اس لیے برداشت کرتے ہیں کیونکہ ہمیں اپنے بچوں کی پرورش کرنی ہے، یہاں خوراک کی کمی ہے ہم سب بھوکے ہیں اور ہمیں کھانے کی اشد ضرورت ہے۔‘

انتباہ: اس تحریر میں موجود چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا ایسے میں خواتین مردوں سے زیادہ محفوظ ہیں؟ مطلب ریپ جیسے واقعات؟

میرے اس سوال کے بعد آوازیں مدھم پڑ گئیں اور خوفناک خاموشی چھا گئی، پھر ان میں سے ایک بول پڑیں۔

انھوں نے کہا کہ ’یہاں بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کا ریپ کیا گیا لیکن وہ اس کے بارے میں بات نہیں کرتی ہیں۔‘

جب انھوں نے مُجھ سے یہ بات کہی تو اس دوران اُن کے آنسو رواں تھے، اپنی گالوں سے آنسو پونچھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ویسے بھی اس سب سے کسی کو کیا فرق پڑے گا؟‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’آر ایس ایف والے کچھ لڑکیوں کو تو رات کے وقت گلیوں میں ہی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، اُن کا ریپ کرتے ہیں اور اگر انھیں اس بازار سے اپنے گھروں میں واپس لوٹنے میں دیر ہو جائے تو آر ایس ایف والے انھیں پانچ یا چھ دن کے لیے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔‘

جب وہ یہ سب مُجھے بتا رہی تھیں تو اُن کی والدہ اور اُن کے ساتھ وہاں موجود دیگر خواتین بھی یہ سُن کر رونے لگیں۔

انھوں نے مُجھ سے سوال کیا کہ ’جہاں آپ رہتی ہیں، اگر آپ کا بچہ باہر جاتا ہے اور واپس نہیں آتا تو کیا آپ اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیتی ہیں یا اُس کے پیچھے اُسے دھونڈنے جاتی ہیں؟‘

’لیکن ہمیں بتائیں، ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہمارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں، کسی کو ہماری پرواہ نہیں۔ دنیا کہاں ہے؟ آپ ہماری مدد کیوں نہیں کرتے؟‘

یہ جگہ مایوسی، درد اور تکلیف سے بھرا ایک مُشکل مقام تھا۔

سوڈان
Getty Images

مسافروں نے بتایا کہ ایک ایسے تنازعے میں لاقانونیت، لوٹ مار اور بربریت کا سامنا کرنا پڑا ہے کہجس کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس نے 10.5 ملین سے زیادہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا۔

لیکن طویل تنازعے کی وجہ سے یہاں جنسی تشدد بہت بڑھ گیا ہے۔ جو فوج اور آر ایس ایف کے مابین کھینچا تانی کی وجہ سے شروع ہوا مگر اب مقامی مسلح گروہوں اور پڑوسی ممالک کے جنگجوؤں کو بھی یہ سب اپنی جانب راغب کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ ریپ کو ’جنگ کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک حالیہ فیکٹ فائنڈنگ مشن نے فوج کے ارکان کی جانب سے ریپ اور ریپ کی دھمکیوں کے متعدد واقعات کو دستاویزی شکل دی لیکن اس سب میں سامنے یہ آیا کہ آر ایس ایف اور اس کے اتحادی جنگجوؤں کی جانب سے بڑے پیمانے پر جنسی تشدد کا ارتکاب کیا گیا اور یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

بی بی سی سے بات کرنے والی ایک خاتون نے آر ایس ایف پر ریپ کا الزام عائد کیا۔

ہم ان سے ایک بازار میں ملے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ بازار ام درمان سے باہر ایک صحرائی سڑک پر بنجر زمین تک پھیل گیا، جو اپنی کم قیمتوں کے ساتھ غریب لوگوں کو اپنی طرف راغب کر رہا ہے۔

سوڈان
BBC/Ed Habershon
سوڈان میں خانہ جنگی نے شدید انسانی بحران کو جنم دیا ہے

مریم (فرضی نام) نے دارالسلام میں اپنے گھر سے بھاگ کر اپنے بھائی کے پاس پناہ لی۔

اب وہ ایک چائے کی دکان پر کام کرتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جنگ کے آغاز میں دو مسلح افراد ان کے گھر میں داخل ہوئے اور ان کی بیٹیوں کے ریپ کی کوشش کی جن میں سے ایک 17 سال اور دوسری 10 سال کی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنی بیٹیوں سے کہا کہ وہ میرے پیچھے رہیں اور میں نے آر ایس ایف سے کہا کہ اگر آپ نے ریپ ہی کرنا ہے تو میری بیٹیوں کا نہیں میرا کریں۔‘

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’انھوں نے مجھے بہت مارا پیٹا اور مجھے کپڑے اتارنے کا حکم دیا۔ انھیں اتارنے سے پہلے، میں نے اپنی بیٹیوں کو وہاں سے جانے کے لیے کہا۔ پھر ان میں سے ایک آدمی مُجھ پر لیٹ گیا۔‘

آر ایس ایف نے بین الاقوامی تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ انھوں نے جنسی تشدد اور تشدد کی دیگر اقسام کی روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتے ہیں۔

تاہم جنسی تشدد کے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں اور ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

سوڈان
Getty Images
سوڈان میں خانہ جنگی کی وجہ سے جانی نقصان کے ساتھ ساتھ املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا

درختوں کی ایک قطار کے سائے میں ایک کم اُونچے لکڑی کے بنے سٹول پر بیٹھی فاطمہ (فرضی نام) نے مجھے بتایا کہ ان کے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش ہونے والی ہے اور وہ اسی وجہ سے ام درمان آئی ہیں اور یہاں رہنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ پڑوس میں ایک 15 سالہ لڑکی حاملہ ہو گئی تھی جب آر ایس ایف کے چار جنگجوؤں نے اُس کا اور اُس کی 17 سالہ بہن کا ریپ کیا۔

انھوں نے کہا کہ لوگ چیخوں سے بیدار ہوئے اور یہ دیکھنے کے لیے باہر آئے کہ کیا ہو رہا ہے لیکن مسلح افراد نے ان سے کہا کہ اگر وہ اپنے گھروں میں واپس نہیں گئے تو انھیں گولی مار دی جائے گی۔

اگلی صبح، انھوں نے دونوں لڑکیوں کو دیکھا جن کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے اور ان کے بڑے بھائی کو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا تھا۔

فاطمہ کا کہنا تھا کہ ’جنگ کے دوران جب سے آر ایس ایف آئی ہے، اب ریپ کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے پڑوس میں یہ سب ہوتے ہوئے دیکھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’شروع میں ہمیں ان خبروں اور ریپ کے واقعات کے بارے میں شک تھا لیکن یہ سب دیکھنے کے بعد اب ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کرنے والے آر ایس ایف کے لوگ ہیں۔‘

دیگر خواتین آر ایس ایف کے زیر قبضہ علاقوں میں اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے جمع ہو رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اتنی غریب ہیں کہ ایک نئی زندگی کا آغاز نہیں کر سکتیں جیسا کہ مریم نے دارالسلام چھوڑ کر کیا۔

جب تک یہ جنگ جاری ہے، ان کے پاس اس جہنم میں لوٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.