حزب اللہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد ایران کی جانب سے’تحمل کا مظاہرہ‘ ایک نپا تلا فیصلہ یا سوچ میں تبدیلی؟

بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ حزب اللہ کے کمانڈ سٹرکچر کو بری طرح متاثر کرنے والے اسرائیلی حملوں کے بعد ایران کی طرف سے زیادہ زور دار اور فیصلہ کن ردعمل آئے گا تاہم تاحال اس طرح کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔
ایرانی صدر
Reuters
جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں بھی سخت گیر پیشروؤں کے مقابلے میں ایرانی صدر پزشکیان کا لہجہ زیادہ مصالحتی تھا اور انھوں نے اپنے روایتی دشمن کو ختم کرنے کے بارے میں بیان بازی سے گریز کیا

لبنان میں حزب اللہ حال ہی میں ایسے حملوں کی زد میں آئی ہے جن کی مثال نہیں ملتی۔ ان اسرائیلی حملوں کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انھوں نے اس گروپ کو گذشتہ چار دہائیوں میں اس کے سب سے بڑے بحران کا شکار کر دیا ہے۔

حزب اللہ کے خلاف حملوں کی تازہ ترین لہر پورے لبنان میں گروپ کے مواصلاتی آلات کے دھماکوں سے شروع ہوئی، جس کے بعد اسرائیل نے اس کے سینیئر کمانڈروں کو ہلاک کیا اور پھر لبنان نے اسرائیل کے ساتھ 2006 کی جنگ کے بعد مہلک ترین دنوں کا سامنا کیا۔

’مزاحمت کے محور‘ کے نام سے مقبول اسرائیل مخالف علاقائی مسلح گروہوں کے اتحاد کی سب سے بڑی ملیشیاحزب اللہ کو اپنے قیام کے بعد سے ہی ایران کی مکمل اور غیر متزلزل حمایت حاصل رہی ہے۔

بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ حزب اللہ کے کمانڈ سٹرکچر کو بری طرح متاثر کرنے والے اسرائیلی حملوں کے بعد جنھوں نے ’دنیا کی سب سے طاقتور غیر ریاستی فوج‘ کو ایک نازک موڑ پر کھڑا کر دیا، ایران کی طرف سے زیادہ زور دار اور فیصلہ کن ردعمل آئے گا تاہم تاحال اس طرح کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔

ایران کے دیرینہ دعوے کے باوجود کہ حزب اللہ اس کی ’آخری حد‘ ہے اور اگرچہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ اسرائیل نے ’تمام حدیں عبور کر لی ہیں‘، ایران نے عملی یا جارحانہ ردعمل کے کوئی آثار نہیں دکھائے۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور دھمکیوں کی حسب معمول شعلہ بیانی بھی سامنے نہیں آئی۔

ایرانی حکام کیا کہہ رہے ہیں؟

ایران
Getty Images

اس سلسلے میں ایران کہاں کھڑا ہے اس کا سراغنیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے والے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے حالیہ بیانات میں مل سکتا ہے۔

بلومبرگ کے مطابق امریکی نامہ نگاروں کے ساتھ ایک ملاقات میں ایرانی صدر نے ایک غیرمعمولی بیان دیا، جس میں تجویز کیا گیا کہ اگر اسرائیل ہتھیار رکھ دیتا ہے تو ایران بھی ایسا کرنے پر غور کرے گا۔

یہ تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد دو ماہ سے بھی کم عرصہ قبل ایران کے موقف کے بالکل برعکس ہے، جہاں ایران نے اسرائیل کے خلاف سخت انتقام کا عزم کیا تھا۔

نیویارک میں یہ نیا زیادہ مفاہمانہ موقف اتنا اہم تھا کہ اس نے ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کو ان خبروں کی سختی سے تردید کرنے پر مجبور کیا کہ تہران اسرائیل کے ساتھ تعلق بہتر بنانے کے لیے تیار ہے۔

منگل کو جب ایرانی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تو انھوں نے غزہ میں اسرائیل کی جنگ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور متنبہ کیا کہ لبنان پر اس کے حملوں کی توجیح نہیں پیش کی جا سکتی۔

لیکن اپنے سخت گیر پیشروؤں کے مقابلے میں صدر پزشکیان کا لہجہ زیادہ مصالحتی تھا اور انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے روایتی دشمن کو ختم کرنے کے بارے میں بیان بازی سے گریز کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم سب کے لیے امن چاہتے ہیں اور کسی بھی ملک کے ساتھ تصادم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔‘

سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے، جو اب نائب صدر ہیں، سوشل میڈیا پر صدر پزشکیان کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے، جہاں صدر کی جانب سے ’اسرائیلی جرائم‘ کی مذمت کی طرف اشارہ کیا وہیں ایران کو ’امن کا چیمپیئن‘ اور خطے میں جوہری اسلحہ میں تخفیف کے حامی کے طور پر پیش کیا۔

جواد ظریف نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ ایران کے ارادوں کے بارے میں ’خطرناک اور غلط بیانیہ‘ آگے بڑھا رہا ہے اور بنیادی طور پر یہ کہا کہ ایران، اسرائیلی دعوؤں کے برعکس، جنگ نہیں چاہتا۔

خود صدر پزشکیان نے امریکی نامہ نگاروں سے اپنی بات چیت میں واضح طور پر کہا کہ ’ہم جنگ نہیں چاہتے‘۔ انھوں نے اسرائیل پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایران کو ایک ایسے تنازعے میں کھینچنے کے لیے جال بچھا رہا ہے جس میں کسی کی جیت نہیں ہو گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایران میں اقتدار ملک کے رہبِر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای اور پاسداران انقلاب کے ہاتھوں میں ہے اور اہم سٹریٹجک فیصلے صدر نہیں بلکہ وہ کرتے ہیں۔

آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریبی قدامت پسندوں نے اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی بات کرنے پر صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انھیں براہ راست انٹرویو دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

تاہم خود آیت اللہ علی خامنہ ای نے، جو تاریخی طور پر اسرائیل اور امریکہ کے بارے میں سخت ترین خیالات رکھتے ہیں، حزب اللہ کے مواصلاتی آلات کو نشانہ بنائے جانے کے تین دن بعد، اپنی تازہ ترین عوامی تقریر میں لبنان کا صرف ایک بار مختصراً ذکر کیا۔

اس کے برعکس انھوں نے اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے ’پہلے قدم‘ کے طور پر ’اسلامی اتحاد‘ پر زور دیا اور مسلم ممالک کے درمیان اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات منقطع کرنے کے لیے جانے پہچانے مطالبات کا اعادہ کیا۔

ایران کے پاسداران انقلاب کے دیگر اعلیٰ حکام اور کمانڈروں نے بھی اپنے ملک اور اس کے اہم اتحادیوں حماس اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کے اقدامات کا بدلہ لینے کے ارادوں کا اظہار کرتے ہوئے غیر معمولی طور پر تحمل کا مظاہرہ کیا۔

ایران
Getty Images

اس تبدیلی کی عکاسی ایرانی حکومت کے حامی میڈیا میں بھی ہوئی، جو روایتی طور پر ایران سے اسرائیل کے خلاف انتقام کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ کچھ سخت گیر آوازیں اور ادارے اب اسرائیل کے خلاف مسلم اتحاد جیسے نظریات پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں جبکہ اس طرح کی تجاویز کئی دہائیوں تک بے اثر رہی ہیں۔

اگرچہ ان میں سے بہت سے ذرائع ابلاغ اب بھی جارحانہ سرخیوں اور بڑے میزائلوں کی تصاویر استعمال کرتے ہیں،اسرائیل پر ایران کے ناکام میزائل حملوں اور تہران میں ہنیہ کے قتل کے بعد سامنے آنے والا حالیہ مہینوں کا انتقامی لہجہ ان میں سے غائب ہے۔

مثال کے طور پر، انتہائی قدامت پسند اخبار کیہان نے ’الٹی گنتی شروع ہو گئی!‘ کے عنوان سے حال ہی میں ایک اداریہ شائع کیا لیکن اسی مضمون میں ہی، اسرائیل کی ’ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس کے معاملات میں برتری‘ کا ایک کھلا اعتراف ہے، جس کی وجہ مغربی حمایت کو قرار دیا گیا جبکہ حزب اللہ کو صرف ایران، فلسطین، یمن اور عراقی مزاحمتی گروپوں کا حمایت یافتہ بیان کیا گیا۔

کیہان کی طرف سے اس طرح کا لہجہ تجویز کر سکتا ہے کہ پیچیدہ کارروائیوں، جیسے کہ حزب اللہ کے مواصلاتی آلات کو سبوتاژ کرنا جو اسرائیل کے تیز اور مہلک حملوں کا پیش خیمہ تھا، نے نہ صرف حزب اللہ کو حیرت میں ڈال دیا بلکہ ایران کی قیادت کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔

اس صورتحال کو انتقام کے وعدوں سے پسپائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے تاہم کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک نپے تلے وقفے کا اشارہ ہے اور ایران ممکنہ طور پر ایک حیران کر دینے والا دھچکہ دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

اگرچہ اس طرح کے اقدام کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آتا لیکن مشرق وسطیٰ طویل عرصے سے غیر متوقع پیشرفت کا خطہ رہا ہے۔

ادھر کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ایران اسرائیل کے ساتھ حزب اللہ کے تنازعے میں براہ راست مداخلت سے باز رہتا ہے تو اس سے خطے کی دیگر اتحادی ملیشیاز کو یہ پیغام جانے کا خطرہ ہے کہ بحران کے وقت وہ اپنی بقا اور مفادات کو ان پر ترجیح دے سکتا ہے اور اس سے خطے میں ایران کا اثر و رسوخ اور اتحاد کمزور ہو سکتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.