رجسٹرڈ وی پی این کا استعمال ہی شرعی طور پر درست ہو گا: اسلامی نظریاتی کونسل

image
اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ وی پی این یا کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال غی شرعی نہیں بلکہ ہم سے گزشتہ اجلاس کا اعلامیہ لکھنے میں غلطی ہوئی ہے۔

بدھ کو اسلام آباد میں اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین ڈاکٹر راغب نعیمی کا کہنا تھا کہ ’کسی نے وی پی این کو غی شرعی یا ناجائز قرار نہیں دیا بلکہ ہمارے جاری کردہ بیان میں ٹائپنگ کی غلطی ہوئی اور ’نہیں‘ نہ لکھنے کے سبب غلط فہمی پیدا ہوئی۔ آزادی اظہار رائے تسلیم شدہ اصول ہے اس کو یقینی بنایا جائے۔‘

 

اُنہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کے استعمال پر شرعی حوالے سے مزید تحقیق کا بھی فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

’وی پی این مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے‘

اپنی پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر راغب نعیمی کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ الگ بات ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال غیرشرعی نہیں تاہم موجودہ حالات میں پاکستان میں رجسٹرڈ وی پی این کا استعال ہی شرعی طور پر درست ہو گا۔

اُنہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا کو اسلامی تعلیمات کے فروغ اور ملکی سلامتی کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ اسے توہین مذہب، فرقہ واریت، انتہا پسندانہ اقدامات و دیگر مذموم مقاصد کے لیے ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘

اُنہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کے دیگر ارکان کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران مزید کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے کام کرنے کا ایک خاص طریقہ کار ہے۔ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جائز مقاصد کے حصول کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کو آسان بنائے جبکہ جدید ذرائع ابلاغ پر پابندی مسائل کا حل نہیں ہے۔‘

ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہا کہ وی پی این یا کوئی اور ایسا سوشل میڈیا پلیٹ فارم غیرشرعی نہیں (فائل فوٹو: ڈیجیٹل رائٹس مانٹیر)

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر راغب نعیمی کا کہنا تھا ’آئین میں آزادی اظہار رائے کی مشروط اجازت دی گئی ہے۔ اگر کسی کو مادر پدر آزادی چاہیے تو مشروط آزادی اظہار کو ختم کروا کر نئی ترمیم لے آئے۔ اسلامی ملک میں حکومت کا کام امر باالمعروف و نہی عن المنکر ہونا چاہیے۔‘

ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہا کہ وی پی این یا کوئی اور ایسا سوشل میڈیا پلیٹ فارم غیرشرعی نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ہر شخص کو معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے تاہم معلومات تک رسائی کے حق کو درست انداز میں اپنانا چاہیے۔

جدید ٹیکنالوجی سے انکار ممکن نہیں: ڈاکٹر راغب نعیمی 

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر راغب نعیمی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا علماء کو پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے کام نہیں کرنا چاہیے؟ تو اِس کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عصرِ حاضر میں جدید ٹیکنالوجی سے انکار ممکن نہیں۔جدید ذرائع پر پابندی مسائل کا حل نہیں البتہ ہم اس کا مناسب استعمال لازمی قرار دیتے ہیں۔

ڈاکٹر راغب نعیمی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا وزیراعظم وی پی این استعمال کر کے غیرشرعی کام کر رہے ہیں؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ ’30 نومبر تک وی پی این رجسٹر کرنے کا وقت دیا گیا ہے اس کے بعد سب کو رجسٹرڈ وی پی این استعمال کرنا چاہیے۔‘

اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ ’سوشل میڈیا اپنے خیالات و آراء کے اظہار کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔‘ (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

پریس کانفرنس سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’سوشل میڈیا اپنے خیالات و آراء کے اظہار کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ اس کو بجا طور پر اچھے اور عمدہ مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ منفی اور غلط مقاصد کے لیے بھی اس کا استعمال ممکن ہے۔‘

'ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اسلامی تعلیمات کی پیروی میں کرے۔ عمومی مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ انٹرنیٹ کے استعمال کے دوران غیراخلاقی مقاصد کے حصول کے لیے وی پی این کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ شرعی طور پر درست عمل نہیں۔‘

اس سے قبل جمعے کو اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کے استعمال کو ’غیر شرعی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’حکومت کو شرعی لحاظ سے اختیار ہے کہ وہ برائی اور برائی تک پہنچانے والے تمام اقدامات کا انسداد کرے۔‘

چیئرمین نے کہا تھا کہ ’انٹرنیٹ یا کسی سافٹ ویئر (وی پی این) کا استعمال جس سے غیر اخلاقی یا غیرقانونی امور تک رسائی مقصود ہو، شرعاً ممنوع ہے۔ ریاست کی طرف سے وی پی این بند کرنے کا اقدام قابل تحسین ہے۔‘

ڈاکٹر راغب نعیمی کا کہنا تھا کہ غیرقانونی مواد تک رسائی کے لیے وی پی این کا استعمال اعانت علی المعصیہ (گناہ پر معاونت) کے زمرے میں آتا ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.