پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں چھ روز قبل اغوا ہونے والا سکول کا طالب علم تاحال بازیاب نہیں ہو سکا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بچے کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔مغوی بچے کے لواحقین اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے گزشتہ چار روز سے بلوچستان ہائی کورٹ اور بلوچستان اسمبلی کے باہر دھرنا جاری ہے۔ بدھ کو سکول کے بچوں اور اساتذہ نے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا۔تیسری جماعت کے طالب علم 10 سالہ محمد مصور کو کوئٹہ کے ملتانی محلہ سے 15 نومبر کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھر سے سکول جا رہا تھا۔پولیس کے مطابق مصور سکول وین میں سوار تھا، تین مسلح ملزمان نے وین کو اسلحے کے زور پر روکا اور بچے کو نیچے اتار کر ایک دوسری کار میں بٹھا کر لے گئے۔مصور کے والد راز محمد کاکڑ کوئٹہ کے بڑے صراف (جیولر) ہیں اور ان کی شہر کے اہم علاقے لیاقت بازار میں دکان ہے۔بچے کے چچا حاجی ملنگ کاکڑ نے بتایا کہ ’ہم کاروباری لوگ ہیں۔ ہمارا کسی سے کوئی کاروباری تنازع، کوئی ذاتی رنجش یا قبائلی دشمنی نہیں، اس لیے ہمیں یقین ہے کہ بچے کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا ہے۔‘تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک ملزمان کی جانب سے تاوان کے لیے لواحقین کو کوئی پیغام نہیں ملا ہے۔
مصور کے والد راز محمد کاکڑ کی کوئٹہ کی شہر کے اہم علاقے لیاقت بازار میں دکان ہے (فوٹو: اردو نیوز)
محمد مصور کے اغوا کے خلاف ان کے لواحقین، سیاسی و سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے چھ دنوں سے احتجاج جاری ہے۔ کوئٹہ میں سرینا چوک پر بلوچستان اسمبلی اور بلوچستان ہائی کورٹ کی عمارات کے باہر چار دنوں سے دن رات مسلسل دھرنا بھی دیا جا رہا ہے۔
حاجی ملنگ کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’مصور عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسی سکول سے قرآن بھی حفظ کر رہا تھا۔ وہ والدین کا لاڈلا بچہ اور ہم سب کا پیارا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے گھر کا ایک دوسرا بچہ بھی چار سال قبل قتل کیا گیا۔ اس کے ملزم اب تک نہیں پکڑے گئے۔‘’ہم ابھی تک پہلے واقعے کے غم سے نہیں نکلے تھے کہ اب ایک اور امتحان کا سامنا ہے۔ پورا خاندان پریشان اور گھر میں کہرام مچا ہوا ہے۔‘حاجی ملنگ کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’پولیس یقین دہانیاں کرا کے احتجاج ختم کرنے پر زور دے رہی ہیں لیکن ہم بچے کی بازیابی تک احتجاج جاری رکھیں گے اور اپنے گھروں کو نہیں جائیں گے۔ اس سردی میں دن رات سڑکوں پر ہی بیٹھے رہیں گے۔‘تاجروں کی ہڑتالبچے کے اغوا کے خلاف کوئٹہ میں سنیچر کو شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ 23 نومبر کو پہیہ جام ہڑتال کی کال بھی دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وکلا نے بھی احتجاج میں حصہ لیا اور ریلی نکالی۔ بدھ کو سکول کے بچوں اور اساتذہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور بچے کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔اس احتجاج میں تاجر تنظیمیں بھی شریک ہیں۔ مرکزی انجمن تاجران بلوچستان کے صدر رحیم کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’شہر میں کوئی بھی محفوظ نہیں، آئے روز لوٹ مار کی وارداتیں ہو رہی ہیں، اب بات بچوں تک پہنچ چکی ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ کاروباری طبقہ بھی خود کو غیرمحفوظ سمجھتا ہے اور ہم یہاں سے اپنا گھر بار اور کاروبار دوسرے صوبوں کو منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
بدھ کو سکول کے بچوں اور اساتذہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور بچے کی بازیابی کا مطالبہ کیا (فوٹو: اردو نیوز)
بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ارکان اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے بھی امن وامان کی خراب صورت حال پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
صوبائی وزیر صادق عمرانی کا کہنا ہے کہ ’حکومت امن وامان کی بہتری کے لیے کوشاں ہے، بچے کی بازیابی کے لیے تمام تر وسائل استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔‘بچے کی بازیابی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں: آئی جی پولیسآئی جی پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری نے بھی بچے کے لواحقین اور تاجر تنظیموں کے وفد سے ملاقات میں بچے کی جلد بازیابی کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ جرائم خاص کر اغوا میں ملوث ملزمان کو کسی صورت نہیں بخشا جائےگا۔ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بچے کی بازیابی کے لیے کوششیں کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں عوام سے بھی مدد مانگی گئی ہے۔‘پولیس کی جانب سے اغوا میں استعمال ہونے والی گاڑی کی تصویر جاری کرتے ہوئے اغوا کاروں اور ان کے زیراستعمال گاڑی کے بارے میں معلومات دینے والے کے لیے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔سیف سٹی کے 630 کیمرے خراب ہونے کا انکشافبلوچستان ہائی کورٹ نے بھی لواحقین کی درخواست پر حکام کو بچے کی فوری بازیابی کے لیے اقدامات کی ہدایت کی ہے۔ مقدمےکی سماعت کے دوران حکام کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ شہر میں سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت لگائے گئے 830 میں سے 630 کیمرے خراب ہیں۔پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بچے کے اغوا میں استعمال ہونے والی گاڑی کے بارے میں اب تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ گاڑی نان کسٹم پیڈ ہے۔
کوئٹہ شہر میں سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت لگائے گئے 830 میں سے 630 کیمرے خراب ہیں (فوٹو: ویڈیو گریب)
پولیس کے مطابق کوئٹہ میں رواں برس بچوں کے اغوا کے 26 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں سے پانچ اغوا برائے تاوان کے مقدمات ہیں۔
تاوان کی وصولی کی غرض سے اغوا کیے گئے دو بچے بازیاب کرا لیے گئے جبکہ ایک بچے کی لاش ملی۔ دو بچے اب تک بازیاب نہیں ہو سکے ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ اغوا برائے تاوان میں ملوث آٹھ میں سے چھ ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ ذاتی رنجش اور دیگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر بچوں کے اغوا کے 21 واقعات رپورٹ ہوئے۔پولیس کے مطابق ان 21 مقدمات میں 28 ملزمان ملوث تھے جن میں سے 16 پکڑے گئے ہیں۔ 13 بچے بازیاب کرائے گئے جبکہ نو بچے اب تک لاپتا ہیں۔