عامر خان نے نیٹ فلکس انڈیا پر وویک مورتی کو انٹرویو دیا، جس میں انھوں نے بتایا کہ وہ اور ان کی بیٹی ایرا ’جوائنٹ تھراپی‘ لے رہے ہیں۔
’میں اپنے والد سے بات نہیں کرتا، وہ میری بات نہیں سمجھتے۔ پہلے میرے بھائی بہن کے ساتھ تعلقات اچھے تھے لیکن اب لگتا ہے کہ اس رشتے میں کچھ ٹوٹ گیا۔‘
درحقیقت دو لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ جس قسم کا رشتہ ہو، کبھی کبھی فاصلہ آجاتا ہے، رابطہ منقطع ہو جاتا ہے اور نتیجتاً یہ رشتہ روز بروز بگڑتا چلا جاتا ہے۔ کیا اس کا کوئی حل ہے؟
فیملی تھیراپی یا جوائنٹ تھراپی اس کا حل ہو سکتا ہے۔
عامر خان نے نیٹ فلکس انڈیا پر وویک مورتی کو انٹرویو دیا، جس میں انھوں نے بتایا کہ وہ اور ان کی بیٹی ایرا ’جوائنٹ تھیراپی‘ لے رہے ہیں۔
جوائنٹ یا فیملی تھیراپی کیا ہے؟
اب بھی تھیراپی یا ماہر نفسیات کے پاس جانا برا سمجھا جاتا ہے۔
طلاق جیسے معاملات میں اکثر جوڑوں کو اس تھیراپی سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تاکہ وہ بات چیت کے ذریعے اپنے تعلقات کو بہتر بنا سکیں۔ قانونی طور پر مسائل کے حل کے لیے یہ پہلی کوشش بھی ہوتی ہے۔
فیملی تھیراپی ٹاک تھیراپی کا ایک حصہ ہے جس میں ماہرین ایک خاندان یا خاندان کے کچھ افراد کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور ان کے مسائل حل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
اس کا مقصد خاندان کے دو یا دو سے زیادہ افراد کے درمیان رابطے یا تعلق کو بہتر بنانا اور ایک دوسرے کے خلاف غصے یا نفرت کو کم کرنا ہے۔
اکثر اس تھیراپی کی مدد اُس وقت لی جاتی ہے کہ جب یا تو کوئی شخص اپنی زندگی میں ہونے والی ہر چیز کے لیے خاندان یا کسی اور بات یا فرد کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔
یا خاندان کے کچھ افراد کا رویہ اس شخص کو پریشان کر رہا ہوتا ہے یا پھر دوسری جانب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پورا خاندان اس شخص کے رویے سے پریشان ہو۔
ایسے میں سب کے لیے ضروری ہے کہ مل بیٹھ کر مسائل کو حل کریں لیکن اکثر ہوتا یہ ہے کہ تعلقات اتنے کشیدہ ہو جاتے ہیں کہ اگر بات بھی ہو تو بامعنی بات چیت کم اور الزامات اور جوابی الزامات زیادہ ہوتے ہیں۔
لہذا، آپ کو ایک ماہر یا کونسلر کے پاس جانے اورتھیراپی لینے کی ضرورت پر جاتی ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
نکیتا مولے ممبئی میں کلینیکل سائیکولوجسٹ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’انڈیا جیسے ملک میں فیملی بیسڈ سسٹم اور کلچر ہے، جس کا مطلب ہے کہ آپ ایک ہی وقت میں بہت سے لوگوں سے جڑے ہوئے ہیں۔‘
’ان کا ایک دوسرے کے ساتھ جذباتی، مالی اور بہت قریبی تعلق ہے۔ لہٰذا ہمارے ملک میں اس طرح کی فیملی تھراپی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’کیونکہ ہمارے پاس جذبات کے اظہار کا کوئی خاص طریقہ نہیں۔ ہم عام طور پر اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ گھر میں کیا پکایا جائے گا، ٹی وی پر کیا ہے اور روزمرہ کی دیگر چیزیں۔‘
لیکن اکثر وہ چیزیں خاندانی گفتگو کا حصہ نہیں ہوتیں جو کوئی اپنے دل میں محسوس کر رہا ہوتا ہے جو چیز انھیں پریشان کر رہی ہوتی ہے یا وہ اسے کسی دوسرے سے کہہ نہیں پاتے۔
بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کیا جاسکتا ہے لیکن لوگ اکثر اس طرح کی گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
کلیولینڈ کلینک کے مطابق فیملی تھراپی میں خاندان کے متعدد ارکان کو ایک ساتھ یا گروپوں میں کسی ماہر سے بات کرنا شامل ہوسکتا ہے۔
مثال کے طور پر بچے اور والدین، بہن بھائی یا یہاں تک کہ تین نسلیں بھی اپنے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
کلینک کی ویب سائٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس تھیراپی سے مدد مل سکتی ہے:
- اگر فیملی میں کسی کی موت ہو گئی ہے تو اس صدمے پر کیسے قابو پایا جائے یا اگر ہم ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں تو ایسے میں کیا کریں۔
- بوڑھے والدین ان کے درمیانی عمر کے بچوں اور چھوٹے پوتے پوتیوں کے درمیان رابطے کو کیسے بہتر بنائیں۔
- جب والدین میں کسی وجہ سے علیحدگی ہو رہی ہو اور ایسے میں بچے متاثر ہو رہے ہوں تو کیا کرنا چاہیے؟
- اور اگر خاندان میں کوئی ذہنی بیماری کا شکار ہے تو خاندان اس تھراپی سے بہت مدد حاصل کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر اومکار جوشی ماہر نفسیات ہیں۔ ان کے پاس آنے والے مریضوں کا تعلق عام طور پر دیہی علاقوں سے ہوتا ہے۔
ڈاکٹر جوشی کہتے ہیں کہ ’فرض کریں کہ فیملی میں کوئی ڈپریشن کا شکار رکن یا شیزوفرینیا میں کوئی مبتلا ہے جس کا رویہ بہت پریشان کن ہے۔ ایسے وقت میں وہ اکثر بات چیت یا مشاورت کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔‘
’ایسی صورت حال میں ہم فیملی کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ متاثرہ شخص کو کیسے سنبھالنا ہے۔ دراصل اپنی بیماری کے بارے میں گھر والوں کو بتانا بھی فیملی تھراپی کا ایک حصہ ہے۔
کیا لوگ علاج کے لیے تیار ہیں؟
کیا لوگ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہمارا رشتہ ٹوٹ چکا ہے اور ہمیں اسے ٹھیک کرنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے؟
ڈاکٹر جوشی کہتے ہیں کہ ’لوگ یہ قبول ہی نہیں کرتے کہ انھیں علاج کی ضرورت ہے۔ ابھی آٹھ دن پہلے ایک ماں اور بیٹی میرے پاس آئی تھیں۔ ماں کی عمر ستر سال اور بیٹی کی عمر چالیس سال سے زیادہ تھی۔ لڑکی اعلی تعلیم یافتہ ہے اور اعلی عہدے پر ملازمت کرتی ہے۔ اس کی طلاق ہو گئی اور وہ ڈپریشن میں چلی گئی۔‘
’ماں نے کہا کہ اسے دوبارہ شادی کر لینی چاہیے۔ وہ اس معاملے پر لگاتار آپس میں بحث کر رہے تھے اور معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ لڑکی نے کہا کہ اگر میری ماں مر بھی جائے تو بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
’اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی نے یہ قبول نہیں کیا کہ اسے مدد کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماں کو جو بھی مسئلہ ہے، اس کا علاج ہونا چاہیے جبکہ حقیقت میں لڑکی کے ڈپریشن کا علاج کرنے کی ضرورت تھی۔‘
’اس کے بعد وہ فیملی تھراپی کے ذریعے بات چیت پر راضی ہو گئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ انھیں تھراپی کی ضرورت ہے۔‘
سب سے پہلے کچھ کلینیکل ٹیسٹ ہوتے ہیں جنھیں سائیکومیٹرک ٹیسٹ بھی کہا جاتا ہے جس کے بعد آنے والے کیذہنی حالت کے بارے میں یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ اُن کے ساتھ مسئلہ ہے کیا۔
اسی کے ساتھ ساتھ یہ معلوم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے کہ مریض کا علاج کیسے شروع کیا جائے۔
ڈاکٹر جوشی کہتے ہیں کہ ’یہ سب انسان کی فطرت اور بہت سی چیزوں پر اس کے رد عمل پر منحصر ہے۔ چاہے وہ ایک خاموش شخص ہو یا کھل کر اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرنے والا شخص۔‘
’اس ٹیسٹ کو کرنے کے بعد اس شخص کی خوبیاں اور مسائل سامنے آتے ہیں اور پھر اس قسم کی تھراپی میں ہم سب سے پہلے مریض کے قریبی لوگوں کو بتاتے ہیں اور سکھاتے ہیں کہ آپ متاثرہ شخص کی مدد کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔‘
نسلی صدمے کا تصور
نفسیات میں نسلی صدمے کا ایک تصور بھی ہے۔ مثال کے طور پر ایک ساس اپنی بہو کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کرتی تھی اور جب وہ بہو ساس بنے گی تو وہ اپنی بہو کے ساتھ بھی اسی طرح کا برتاؤ کرے گی۔
یا اگر باپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کر کے اپنے بیٹے کو پیٹتا ہوگا تو بیٹا بھی باپ بننے کے بعد ایسا ہی کرے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک نسل کو صدمہ پہنچتا ہے یا اسے کسی مُشکل یا مسئلے کا سامنا ہے تو اس کا جواب تلاش کرنے کی بجائے وہی صدمہ اگلی نسل تک پہنچ جاتا ہے۔
اس معاملے میں پونے میں مقیم ماہر نفسیات شروتی فڈنویس کہتی ہیں کہ ’نسلی صدمے کا واحد جواب فیملی تھراپی ہے۔ خاندانی تھراپی اس صدمے کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونے سے روکنے کے لیے اہم ہے کیونکہ برتاؤ کا طریقہ اس کے پیچھے کے خیالات ہمارے ماضی کے تجربات سے تشکیل پاتے ہیں۔‘
’اگر باپ غصے میں ہے تو بچہ سوچتا ہے کہ باپ بھی ایسا ہی برتاؤ کرتا ہے۔ پھر وہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کرتا ہے۔ ایسے میں کسی کو تو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہمارا سوچنے کا طریقہ غلط اور صحیح عمل کیا ہے۔‘
’اس تھراپی کے ذریعے ہم سیکھتے ہیں کہ نسلی صدمے کو کیسے ٹھیک کیا جائے اور اگلی نسل کے ساتھ رابطہ کیسے قائم رکھا جائے۔‘
تھراپی کے بعد آگے کیسے بڑھا جائے؟
ماہرین پہلے تو خاندانی تعلقات خراب ہونے کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کچھ ہو جائے تو اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا غصہ برسوں تک ذہن میں رہتا ہے اور لوگ اسے بھول نہیں پاتے۔
ماہر نفسیات شروتی کا کہنا ہے کہ ’ایسے معاملات میں ہم کمٹمنٹ تھراپی کا استعمال کرتے ہیں۔ یعنی جو کچھ ہوا اسے قبول کریں اور مستقبل میں بہتر کرنے کا عزم کریں۔‘
شروتی کرتی کہتی ہیں کہ ’ہم آپ کو جو ہوا اُسے پیچھے چھوڑنا سکھاتے ہیں اور آگے بڑھنے کے طریقے تلاش کرنے میں بھی آپ کی مدد کرتے ہیں۔‘
ڈاکٹر جوشی ایک اور اہم بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہمیں اس بات کی حد مقرر کرنی چاہیے کہ ہم کیا برداشت کر سکتے ہیں۔
ماہر نفسیات شروتی بھی یہی کہتی ہیں کہ ’ہم نے نہ تو حدود مقرر کی اور نہ ہی دوسروں کے لیے ایسا کبھی سوچا۔ پہلے تو ایسا لگتا ہے کہ لوگ خود غرض ہیں لیکن بعد میں تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے سے توقعات محدود ہوتی ہیں۔‘
لیکن تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ فیملی تھراپی کے بارے میں معاشرے میں اتنا شعور نہیں، جتنا ہونا چاہیے۔
نکیتا مولے کہتی ہیں کہ ’ہمیں اس سوچ کو بالائے طاق رکھنا ہوگا کہ ہم گھریلو معاملات کے بارے میں بیرونی دنیا سے کیوں بات کریں۔ جن لوگوں کے پاس آپ تھراپی کے لیے جاتے ہیں وہ ماہرین ہیں اور وہ آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘
’آپ کی بات سننے کے بعد وہ آپ کے بارے میں مفروضے نہیں بناتے۔ وہ آپ کو اپنے مسائل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے میں مدد کرتے ہیں۔‘