خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں جمعرات کو مسافر قافلے پر حملے کے بعد علاقے میں جس غم و غصے کی خبریں مقامی افراد کے ذریعے موصول ہو رہی تھیں اس کی عملی شکل جمعے کی رات بگن میں دیکھنے کو ملی جب سوشل میڈیا پر دکانوں اور مکانوں کو نذرِ آتش کرنے کی ویڈیوز شیئر کی جانے لگیں۔
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں جمعرات کو مسافر قافلے پر حملے کے بعد علاقے میں جس غم و غصے کی خبریں مقامی افراد کے ذریعے موصول ہو رہی تھیں اس کی عملی شکل جمعے کی رات بگن میں دیکھنے کو ملی جب سوشل میڈیا پر دکانوں اور مکانوں کو نذرِ آتش کرنے کی ویڈیوز شیئر کی جانے لگیں۔
ضلع کرم میں گنجان آباد سنی اکثریتی علاقے بگن کے مقامی تاجر نصیب جان کا گھر اسی بازار کے قریب واقع ہے جہاں ان کے بقول جمعے کی شب ’200 دکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔‘
حکام کے مطابق کُرم میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
بی بی سی کو مقامی افراد کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ جمعے کی شب سات بجے کے قریب بگن بازار میں ایک مشتعل گروہ نے سینکڑوں دکانیں اور گھر نذرِ آتش کیے ہیں۔
کرّم کی ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ قیامِ امن کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
بگن بازار نذرِ آتش: عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟
ڈپٹی کمشنر جاوید محسود نے بی بی سی کی نامہ نگار فرحت جاوید کو بتایا کہ بگن میں لشکر کی جانب سے متعدد مکانات اور بگن بازار میں کئی دکانوں اور پیٹرول پمپس کو بھی آگ لگائی گئی ہے۔
کرم پولیس کے ایک سینیئر افسر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سات بجے کے قریب ایک مشتعل گروہ بگن بازار میں داخل ہوا اور اس نے پوری مارکیٹ کی دکانوں اور گھروں پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگانا شروع کر دی۔
ان کے مطابق بگن بازار میں مقامی قبیلے اور طوری لشکر کے مابین شدید لڑائی ہوئی۔
بگن کے رہائشی اور مقامی تاجر نصیب جان کا گھر بگن بازار کے قریب واقع ہے۔ انھیں 22 نومبر کی شب اطلاع ملی تھی کہ بگن کے قریب ایک گاؤں میں املاک کو نذرِ آتش کیا گیا ہے۔
اس ڈر سے لوگوں نے بازار میں اپنی دکانیں بند کیں اور گھروں کو چلے گئے۔
نصیب جان سمیت دیگر تاجروں کو ایسا بالکل نہیں لگتا تھا کہ پُرتشدد ہجوم دکانوں اور گھروں کو بھی نشانہ بنائے گا۔ وہ اپنے گھر میں موجود تھے جب انھوں نے ’نعروں کی آوازیں سنیں۔ سب سے پہلے پیڑول پمپ کو آگ لگائی گئی۔‘
ان کے مطابق یہ ہجوم ’اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے‘ اور املاک کو نذرِ آتش کرتے ہوئے بازار کی طرف بڑھ رہا تھا۔
نصیب جان کہتے ہیں کہ اس ’لشکر‘ نے شام سات بجے کے قریب ’بگن بازار پر قبضہ کر لیا تھا۔۔۔ ان کو کسی بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بازار کے قریب واقع آبادیوں اور بستیوں سے بھی لوگوں نے انخلا شروع کر دیا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ بازار میں موجود دکانوں اور آس پاس گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ ’بگن بازار میں تقریباً دو سو سے زیادہ دکانیں ہیں، ان سب کو جلا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کئی گھروں کو بھی جلایا گیا ہے۔‘
نصیب جان نے بتایا کہ ’رات 10 بجے سے 12 بجے تک شیعہ اور سنی مسلح گروہوں کے بیچ جھڑپیں ہوئیں۔ مگر رات گئے تک دکانوں میں موجود قیمتی سامان جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ بگن بازار میں کئی افراد کو زخمی حالت میں دیکھا جاسکتا تھا اور ادھر کئی لاشیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔
بگن کے مشر اور اہل سنت کے رہنما مشر کریم اورکزئی کا کہنا تھا کہ بگن بازار پر حملہ افسوسناک ہے، حالانکہ یہ علاقہ ہمیشہ سے خود کو فرقہ وارانہتنازع سے باہر رکھتا ہے۔
کریم اورکزئی کا کہنا تھا کہ اس حملے میں 200 سے زیادہ دکانوں اور کئی گھروں کو جلایا گیا ہے تاہم ’جنگ اب بھی جاری ہے اور دونوں اطراف سے فائرنگ ہو رہی ہے۔‘
کرم میں مسافر قافلے پر حملہ: ’میرے سامنے ایک گاڑی پر راکٹ داغا گیا‘
خیال رہے کہ کرم میں حالیہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب جمعرات کو کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلوں پر فائرنگ کے واقعے میں 44 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
کرم میں آمدورفت کے دوران گاڑیوں پر فائرنگ کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، اس سے پہلے بھی گذشتہ کئی ماہ کے دوران اس نوعیت کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
دانش طوری نے جمعرات کی شب دیکھا کہ یہ ایک ’انتہائی خوفناک حملہ تھا۔‘ ان کے سامنے ایک گاڑی پر ’راکٹ لانچر سے‘ حملہ کیا گیا جس سے مسافروں سمیت وہ گاڑی تباہ ہوگئی۔
پاڑہ چنار کی یوتھ کونسل کے چیئرمین دانش طوری اس لمحے کو یاد کرتے ہیں جب فائرنگ شروع ہوئی اور پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی سڑک پر مسافروں پر حملہ ہوا۔
وہ جس مسافر کوچ میں سوار تھے اس میں صرف دو مرد اور باقی تمام خواتین تھیں۔ وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے سفر کر رہے تھے۔
دانش طوری بتاتے ہیں کہ ’جب ہم مندوری کے مقام پر پہنچے تو اس وقت پشاور سے پاڑہ چنار آنے والے کانوائے کی گاڑیاں بھی وہاں پہنچ گئی تھیں اور چند ہی لمحوں میں شدید فائرنگ شروعہوگئی۔‘
اس موقع پر ان سمیت کئی مسافر ایک قریبی نالے کے پاس گھنے درختوں میں چھپ گئے تھے۔ ’میں نے ایک آٹھ سال کی بچی کو اٹھایا ہوا تھا تاکہ اسے محفوظ مقام تک لے جاؤں۔
’لیکن اتنے میں ایک گولی اس بچی کو آ کر لگی اور وہ میرے بازوؤں میں ہی دم توڑ گئی۔‘
’جب تک پولیس نہیں آئی، حملہ آور لاشوں کی بے حرمتی کرتے رہے‘
دانش طوری بتاتے ہیں کہ ’ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے کہاں سے گولیاں اور راکٹ برسائے جا رہے ہیں۔‘
فائرنگ کا یہ سلسلہ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا اور اس دوران ہلکا اور بھاری ہر قسم کا اسلحہ استعمال کیا گیا۔
’ہمارے آگے ایک فیلڈر گاڑی تھی، ایک راکٹ اس گاڑی کو آ کر لگا اور زور کا دھماکہ ہوا۔ ہم خوف سے سہمے ہوئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی ایک گولی یا راکٹ ہمارا بھی خاتمہ کر دے گی۔‘
’ہم نے جلدی سے عورتوں کو گاڑی سے نکالا اور ایک بڑے نالے کو پار کر کے قریب درختوں کے پیچھے چھپ گئے۔‘
دانش طوری کہتے ہیں کہ وہ 10 سے 12 خواتین کو بچانے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن ’میں اس معصوم بچی کو نہیں بچا سکا جو میرے ہاتھوں میں دم توڑ گئی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد پولیس اور دیگر اہلکار وہاں پہنچے اور جو بچ گئے تھے انھیں قریب پولیس چیک پوسٹ کی طرف لے جانے لگے۔
’جب تک پولیس نہیں آئی تھی حملہ آور لاشوں کی بے حرمتی بھی کرتے رہے۔ گاڑیوں میں راستے میں لاشیں اور زخمی پڑے تھے جنھیں ہسپتالوں میں منتقل کیا جانے لگا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ایک پولیس چوکی میں پہنچے جہاں ہمیں کچھ وقت بٹھانے کے بعد پاڑہ چنار پہنچایا گیا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر گذشتہ روز ہونے والے واقعے کی متعدد ویڈیو سامنے آئی ہیں جن میں سے ایک ویڈیو کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ بظاہر یہ ایک مسلح حملہ آور کی طرف سے بنائی گئی ہے۔
اس میں مسلح افراد مسلسل گاڑیوں پر فائرنگ کر رہے ہیں جبکہ ان میں سے ایک دو دستی بم بھی پھینکتے نظر آ رہے ہیں۔
فائرنگ کے اس واقعے کے بعد سے پاڑہ چنار میں ایک بار پھر سے حالات کشیدہ ہیں۔ ماضی میں بھی فرقہ وارادانہ فسادات اور زمین کے تنازعات کے باعث یہاںاکثر فائرنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور علاقے میں قریقین کے بیچ کشیدگی رہتی ہے۔
حالیہ حملے میں ہلاک ہونے والے افراد میں مختلف طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے جن میں ایک صحافی بھی شامل تھے۔
’جانان اپنے نام کی طرح جانان تھا‘
پاڑہ چنار کے رہائشی رضوان حسین کو ان کی اہلیہ نے کہا کہ ’جانان روانہ ہوا ہے اور وہ بھی اس کانوائے میں تھا۔ بھائی سے کہو معلوم کرے کہ جانان تو خیریت سے ہے؟‘
وہ جانان کے کزن ہیں۔ رضوان حسین بتاتے ہیں کہ ’یہ سننے کے بعد میں ہسپتال اور ڈی سی آفس پہنچا تاکہ جانان کے بارے میں معلوم کر سکوں لیکن مجھے کہیں کسی فہرست میں جانان کا نام نظر نہیں آیا۔‘
رضوان حسین اپنے کزن کی تلاش میں کل سارا دن کبھی ہسپتال تو کبھی میڈیا کے دفاتر اور کبھی ڈی سی کے دفتر کے چکر لگاتے رہے لیکن انھیں جانان حسین کا نام کہیں کسی فہرست میں نظر نہیں آیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے میری بیوی نے کہا کہ جانان کی گھر والی آئی ہے اور وہ پریشان تھی کے جانان پشاور سے روانہ ہوا ہے اور راستے میں ہی ہو گا کہ یہ واقعہ پیش آ گیا ہے اور اب جانان سے رابطہ نہیں ہو رہا کہ وہ کہاں ہے۔‘
جانان نے پشاور سے روانگی سے پہلے اور راستے میں بھی اپنی بیوی کو فون پر بتایا تھا کہ وہ روانہ ہوا ہے اور گھر آ رہا ہے۔
جانان حسین ایک مقامی صحافی تھے جو صحافت کے علاوہ ایک فارماسوٹیکل کمپنی کے ساتھ کام بھی کرتے تھے اور غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی مدد کے لیے ’درمان‘ کے نام سے انھوں نے ایک تنظیم بھی قائم کی تھی۔
رضوان حسین نے بتایا کہ تمام اہل خانہ پریشان تھے کہ جانان حسین کا کوئی پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کہاں ہے اور پھر رات 11 بجے کے بعد اچانک گھر میں جانان کی میت پہنچ گئی اور ایک کہرام مچ گیا۔
وہ بتاے ہیں کہ ’جانان مجھ سے عمر میں تین چار سال چھوٹا تھا لیکن اکثر میرے ساتھ رابطے میں رہتا، کوئی مشکل ہوتی تو مجھ سے رابطہ کرتا تھا۔‘
جانان حسین ایک ہفتے کے لیے ملائشیا گئے تھے اور چند روز پہلے پشاور پہنچے تھے۔ وہاں انھوں نے اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں قیام کیا تھا اور بتایا تھا کہ وہ ملائیشیا سے واپس آ گئے ہیں اور جب کانوائے بنے گا تو وہ گھر کے لیے روانہ ہوں گے۔
ضلع کرم کے سینیئر صحافی علی افضل افضال بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’جانان نے مجھے ملائیشیا سے ایک ویڈیو بھیجی تھی جس میں انتہائی خوصورت نظارے تھے اور وہ بتا رہے تھا کہ یہاں لوگ اس دنیا میں جنت کی طرح کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہمیں مرنے کے بعد ہی جنت مل سکے گی۔‘
علی افضل افضال جانان حسین کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ’وہ اکثر اس بات پر پریشان رہتا تھا کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم کن کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔‘
جانان حسین نے شعبہ صحافت میں ماسٹرز کیا تھا اور وہ ان دنوں مختلف چینلز اور اخبارات کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ ان کی شادی تقریباً دو سال پہلے ہوئی تھی لیکن ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
رضوان حسین کے مطابق سات سال پہلے وہ ایک دھماکے میں زخمی ہوئے تھے جس سے ان کی ایک ٹانگ زخمی ہوئی تھی اور پھر انھیں مصنوعی ٹانگ لگائی گئی تھی۔
علی افضل نے بتایا کہ وہ علاقے کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے اور وہ غریبوں کی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ ’پریس کلب میں اب بھی ان کا وہ سامان پڑا ہوا ہے جو انھوں نے غریبوں و بیواؤں اور یتیموں میں تقسیم کرنا تھا۔‘
کرم کے ایک صحافی جاوید حسین نے بتایا کہ ’میرے ساتھ ملائیشیا سے فون پر بات کرتے ہوئے جانان نے بتایا تھا کہ انھوں نے ویڈیو ریکارڈنگ کے لیے ایک ڈرون کیمرا خریدا ہے اور واپس آ کر ایک ساتھ اس پر کام کریں گے۔‘
ان کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں نے بتایا کہ ’جانان اپنے نام کی طرح جانان تھا۔‘
ٹیکسی ڈرائیور جو واپس نہیں آ سکا
ہلاک ہونے والوں میں گلفام حسین بھی شامل ہیں۔ گلفام حسین ایک ٹیکسی ڈرائیور تھے جن کے لواحقین میں تین چھوٹے بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔
ان کے چچا علی غلام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گلفام کے جاننے والے کچھ لوگ علاج کے لیے قطر سے پشاور آئے تھے اور انھوں نے گلفام کو فون کیا کہ تم یہاں آجاؤ اور پشاور میں ہمارے ساتھ کچھ دن قیام کرو۔ پھر واپس ایک ساتھ جائیں گے۔‘
اسی لیے گلفام پشاور چلے گئے تھے۔ علی غلام نے بتایا کہ گلفام نے اپنی بیوی سے کہا تھا کہ ’جس دن کانوائے بنے گا تو ہم اس دن واپس پاڑہ چنار پہنچ جائیں گے۔‘
’مگر ہمیں شام کو اطلاع ملی کہ گلفام ان تمام چار سواریوں سمیت اس حملے میں زخمی ہوا اور پھر دم توڑ گیا ہے۔‘
علی غلام نے بتایا کہ ان کے بہت چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ’گلفام کا گھر میرے گھر کے قریب ہے۔ یہ بہت غریب خاندان ہے۔ لیکن گلفام ایک انتہائی خوش مزاج انسان تھے۔‘