یورپی ملک اٹلی کے چھوٹے سے قصبے ریجیو میں ایک پولیس سٹیشن کو ایک پاکستانی نمبر سے آنے والی انٹرنیشنل کال ایک غیر معمولی بات تھی لیکن یہ سرگودھا سے تعلق رکھنے والی عمارہ (فرضی نام) کی زندگی بدلنے والی تھی۔
اٹلی کے چھوٹے سے قصبے ’ریجیو‘ میں واقع ایک پولیس سٹیشن کو ایک پاکستانی نمبر سے موصول ہونے والی کال ایک غیر معمولی بات تھی مگر یہ سرگودھا سے تعلق رکھنے والی خاتون عمارہ (فرضی نام) کی زندگی بدلنے والی تھی۔
’میں پاکستان میں ہوں، میں ایک خاتون ہوں جسے مدد کی ضرورت ہے۔ میرا شوہر مجھے اور میرے بچوں کو مارنا چاہتا ہے۔۔۔ خدارا جلدی کچھ کریں۔‘
اٹلی کی پولیس افسر سے گھبرائی ہوئی آواز میں یہ بات کہنے والی عمارہ کی آخری امید اب اٹلی کے حکام ہی تھے۔
اس فون کال کے دوران اطالوی پولیس افسر نے عمارہ سے واٹس ایپ کے ذریعے اُن پر ہونے والے مبینہ تشدد کی تصاویر بھیجنے کا کہا اور جب یہ تصاویر پولیس افسر تک پہنچیں تو اُن کے لیے اس حوالے سے کوئی نہ کوئی جلد اقدام اٹھانا ناگزیر ہو گیا۔
اطالوی جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق پولیس افسر کو بھیجی گئی تصاویر کے فوراً بعد سرکاری وکیل کی درخواست پر عمارہ کو ایک ویڈیو کال کی گئی جس کے ذریعے اُن کی جانب سے بھیجی گئی تصاویر کی تصدیق کی گئی۔
یہاں سے اطالوی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ایسی تحقیقات کا آغاز جو عمارہ کے بالاخر اٹلی پہنچنے کا باعث بنیں۔
اٹلی میں موجود عمارہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انھوں نے اپنے شوہر کو مبینہ طور پر دوسری شادی کی اجازت دینے کے بدلے اُس سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا جس کے باعث انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور جان سے مارنےکی دھمکیاں دی گئیں تھیں۔
تاہم، اُن کے مطابق، یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا جب انھیں اپنے شوہر کی جانب سے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ عمارہ کا دعویٰ ہے کہ اُن کی شادی کے ولیمے کے دن سے ہی اُن کی شوہر کی جانب سے اُن پر تشدد کا آغاز ہو گیا تھا۔
عمارہ کا دعویٰ ہے کہ ’شادی کے تیسرے دن ولیمہ تھا اور میں اپنے کمرے میں تیار ہو رہی تھی۔ وہ (خاوند) کمرے میں آئے اور مجھے بتایا کہ میری شادی کی ایک تصویر میرے کزن کے پاس ہے۔‘
’میں نے وضاحت دینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے میری کوئی بات نہیں سُنی اور مجھ پر تشدد کیا۔‘
’18 برس تک جاری رہنے والا جسمانی اور ذہنی تشدد کا سلسلہ‘
عمارہ کا دعویٰ ہے کہ ولیمے کے روز شروع ہونے والے ذہنی اور جسمانی تشدد کا سلسلہ آئندہ 18 برسوں تک جاری رہا اور بات اس حد تک بڑھ گئی کہ انھیں اس ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے اطالوی حکومت سے مدد مانگنی پڑی۔
عمارہ کی شادی پاکستان کے شہر سرگودھا میں رہنے والے اپنے کزن سے ہوئی تھی۔ شوہر کے پاس اٹلی کی شہریت موجود تھی چنانچہ وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد پاکستان سے اٹلی منتقل ہو گئیں، مگر ان کا پاکستان آنا جانا رہتا تھا۔
اُن کے تین بچے ہیں جو کہ اطالوی شہری ہیں جبکہ اس دوران عمارہ کو بھی اٹلی کی مستقل شہریت مل گئی۔
عمارہ کا کہنا ہے کہ شادی کے وقت ان کی عمر صرف 18 برس تھی اور شاید اسی لیے پہلی مرتبہ تشدد ہونے پر انھوں نے اپنے لیے آواز بلند نہیں کی ورنہ ’شاید ظلم کا سلسلہ وہیں تھم جاتا۔‘
30 اکتوبر کو اٹلی کی ایک مقامی عدالت نے ملزم شوہر کو عمارہ سے ملنے سے روک دیا تھا اور اس حوالے سے حکام سے ضروری اقدامات کرنے کا کہا تھا۔ رواں ماہ (نومبر) کے وسط میں جب عمارہ کے شوہر اٹلی پہنچے تو انھیں پولیس کی جانب سے ایک الیکٹرانک بریسلٹ پہنایا گیا تاکہ ان کی آمد و رفت پر نظر رکھی جا سکے۔
ملزم کے خلاف اٹلی کی عدالت میں مقدمہ چل رہا اور اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔
والدین اور پولیس سے مدد کی امید
عمارہ کے مطابق انھوں نے گذشتہ 18 برسوں میں پاکستان آمد پر متعدد مرتبہ اپنے والدین کو اپنے شوہر کے رویے کا بتایا لیکن ان کے والدین نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ ’وہ تمہارا شوہر ہے، کچھ بھی کر سکتا ہے۔‘
عمارہ کا دعویٰ ہے کہ ’میں مار کھا کر اپنے والدین کے گھر جاتی تو وہ مجھے واپس بھیج دیتے۔‘
پاکستان میں حالیہ برسوں میں خواتین پر گھریلو تشدد کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔
سنہ 2023 میں پاکستان کی ایک پارلیمانی کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ صرف پنجاب میں خواتین پر گھریلو تشدد کے 10201 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
اپنے شوہر کے رویے پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اکثر اوقات اس طرح ہوتا تھا کہ وہ باہر جا رہے ہوتے تھے اور جوتے پہن کر آ جاتے اور کہتے کہ ذرا انھیں چمکا دو۔‘
’میں کبھی کبھار کہہ دیتی تھی کہ جوتے اتار کر دے دیں، میں چمکا دیتی ہوں تو اس بات پر بھی مجھے مارتے تھے۔‘
عمارہ اپنی روداد سُناتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ گذشتہ برس نومبر میں پاکستان آئیں اور اس کے بعد رواں برس اکتوبر تک ان کے ساتھ جو ہوا وہ ناقابلِ بیان ہے۔
ان کے مطابق وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں لیکن انھیں پینٹنگ کا شوق تھا اور وہ پینٹنگز ہی کو فروخت کر کے کچھ پیسے بھی کماتی تھیں، لیکن یہ شوق بھی ان کے شوہر کو نہ بھایا۔
’جب ہم گذشتہ برس نومبر میں پاکستان آئے تو میرے شوہر نے مجھے بہت مارا اور اس کے بعد انھوں نے مجھ سے میرے سارے پیسے، کاغذات، موبائل اوربچوں کے پاسپورٹ چھین لیے۔‘
جب عمارہ کو اپنے والدین سے بھی مدد نہ ملی تو انھوں نے پاکستانی حکومت اور پولیس سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب حکومت کے انسانی حقوق سیل میں بھی شکایت درج کروائی اور رواں برس اگست میں مقدمہ بھی درج کروایا لیکن عمارہ کے مطابق انھیں پھر بھی روزانہ کے تشدد سے چھٹکارا نہیں مل سکا۔
دوسری جانب سرگودھا پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ عمارہ کی شکایت پر انھیں قانون کے مطابق مدد فراہم کی گئی تھی اور انھیں عمارہ کی جانب سے گھریلو تشدد کی شکایات برسوں سے مل رہی تھیں۔
پولیس کے مطابق ’ایک دفعہ ان کو دارالامان بھی بھیجا گیا تھا مگر بعد میں انھوں نے اپنے شوہر سے صلح کر لی تھی۔‘
اٹلی میں بچوں کے اساتذہ اور کمیونٹی سینٹر سے رابطے
بالآخر وہ وقت بھی آیا جب عمارہ نے اٹلی کی حکومت سے مدد مانگنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے مرحلے میں انھوں نے اٹلی میں اپنے بچوں کے اساتذہ سے ای میل کے ذریعے رابطہ کی اور انھیں اپنی کیفیت سے آگاہ کیا۔
’اساتذہ نے مجھے تسلی دی اور ایک مہم شروع کی جس کے تحت انھوں نے اٹلی میں ایک کمیونٹی سینٹر سے رابطہ قائم کیا۔‘
عمارہ کا کہنا تھا کہ کمیونٹی سینٹر نے ان سے تشدد کی تصاویر وغیرہ منگوائی تھیں۔
کمیونٹی سینٹر کے متحرک ہونے کے بعد پاکستان میں اٹلی کا سفارتخانہ بھی متحرک ہوا اور انھوں نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے اپنی ایک ٹیم سرگودھا بھیجی۔
’وہ ٹیم اس کالونی بھی آئی جہاں میرے شوہر کا گھر تھا اور انھوں نے میرے بھائی سے رابطہ کیا تھا لیکن میرے گھر والوں نے مجھے اس ٹیم سے ملنے نہیں دیا۔‘
اس صورتحال میں بالآخر عمارہ نے سرگودھا سے اسلام آباد میں واقع اٹلی کے سفارتخانے جانے کا فیصلہ کیا۔
’مجھے تھوڑی بہت اطالوی زبان آتی تھی، میں نے سفارتخانے کے عملے کو اپنا نام وغیرہ بتایا، ان کو میرے کیس کا پتا تھا۔‘
نئی زندگی کی شروعات
عمارہ کہتی ہیں کہ انھوں نے سفیر کو ساری صورتحال بتائی اور ان کو بتایا کہ ’اب یہ مجھے جان سے مار دیں گے، بچوں کے مستقبل کا بھی سوال ہے۔‘
اس پر سفیر نے مجھے اور بچوں کو رہائش کے لیے محفوظ جگہ فراہم کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ سفارت خانے نے اس دوران میرےمستقل رہائش کے کاغذات اور بچوں کے پاسپورٹ کا انتظار کیا اور ہمیں چھ اکتوبر کو اٹلی بھجوا دیا۔
اب عمارہ اپنے بچوں کے ہمراہ اٹلی میں ایک کمیونٹی سینٹر میں رہ رہی ہیں۔
’مجھے کمیونٹی سینٹر اور بچوں کے اساتذہ نے کہا کہ نئی زندگی شروع کریں اور وہ اس میں میری مدد کریں گے۔‘
عمارہ کا کہنا ہے کہ انھیں پینٹنگ کا شوق ہے اور انھیں زندگی میں بھی رنگ بھرنے کا شوق ہے۔
ابھی تک میں نے اس طرح زندگی شروع نہیں کی جس طرح کرنی چاہیے۔ مگر مجھے اب اپنی باقی زندگی اپنے بچوں کے لیے جینی ہے اور میں ان کی زندگی میں خوشی کے رنگ بھرنے کی بھرپور کوشش کروں گی۔‘