جائیداد کا تنازع ویسے تو تقریباً 40 سال پرانا ہے جو تب شروع ہوا جب اس وقت کے میواڑ کے راجا بھگت سنگھ نے اپنے بڑے بیٹے مہندر سنگھ میواڑ سے جائیداد کی ذمہ داریاں لے کر اسے اپنے چھوٹے بیٹے اروند سنگھ میواڑ کے حوالے کر دی تھیں۔
مہارانا پرتاپ سنگھ کی جائیداد کو لے کر ان کے ورثا کے درمیان تنازع ایک بار پھر اس وقت سامنے آیا جب سوموار کے روز پرتاپ سنگھ کے وارثوں میں سے ایک اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن وشوا راج سنگھ میواڑ کی میواڑ کے نئے راجہ کے طور پر تاج پوشی کے بعد انھیں اودے پور کے سٹی پیلس میں واقع اکلنگجی مندر میں پوجا کرنے سے روک دیا گیا۔
وشواراج سنگھ کا کہنا تھا کہ انھیں مندر میں داخل ہونے سے روکنا غیر قانونی ہے۔
جائیداد کا تنازع
جائیداد کا تنازع ویسے تو تقریباً 40 سال پرانا ہے جو تب شروع ہوا جب اس وقت کے میواڑ کے راجا بھگت سنگھ نے اپنے بڑے بیٹے مہندر سنگھ میواڑ سے جائیداد کی ذمہ داریاں لے کر اسے اپنے چھوٹے بیٹے اروند سنگھ میواڑ کے حوالے کر دی تھیں تاہم اس سارے معاملے کو سمجھنے کے لیے تقریباً 70 سال پیچھے جانا پڑے گا۔
بھوپال سنگھ 1930 سے 1955 تک ریاست میواڑ کے مہارانا تھے۔ بھوپال سنگھ کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی اور انھوں نے بھگت سنگھ میواڑ کو گود لے لیا۔
اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھوپال سنگھ نے ایکلنگجی ٹرسٹ قائم کی جس کا مقصد میواڑ خاندان کے محلات، مندروں اور قلعوں کا انتظام دیکھنا تھا۔
بھگت سنگھ کے دو بیٹے مہندر سنگھ اور اروند سنگھ جبکہ ایک بیٹی یوگیشوری تھی۔
جائیداد کا تنازع اس وقت شروع ہوا جب بھگت سنگھ کے بڑے بیٹے مہندر اپنے والد کے خلاف عدالت چلے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ بھگت سنگھ نے اپنی جائیداد بیچنی اور لیز پر دینی شروع کر دی تھی۔ یہ بات ان کے بڑے بیٹے کو پسند نہیں آئی اور انھوں نے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا۔
اپنے بیٹے کی اس حرکت سے ناراض ہو کر بھگت سنگھ نے جائیداد کی ذمہ داری اپنے چھوٹے بیٹے اروند سنگھ کے سپرد کر دی جس کے بعد مہندر سنگھ کا میواڑ خاندان کی جائیداد اور ٹرسٹ سے عمل دخل عملی طور پر ختم ہو گیا۔
نومبر 1984 میں بھگت سنگھ وفات پا گئے لیکن تب تک جائداد کا معاملہ عدالت پہنچ چکا تھا۔
سینیئر صحافی نارائن باریٹھ بتاتے ہیں کہ بھگت سنگھ کی موت کے بعد اروند سنگھ نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور اس طرح مہندر سنگھ کا تمام معاملات میں عمل دخل مکمل طور پر ختم ہو گیا۔
تاہم راجپوت برادری کے ایک حصے نے مہندر سنگھ کو بھگت سنگھ کے جانشین کے طور پر قبول کر لیا لیکن تمام معاشی معاملات تب بھی اروند سنگھ کے ہاتھ میں تھے۔ 10 نومبر 2024 کو مہندر سنگھ وفات پا گئے۔
باریٹھ کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ دونوں بھائیوں میں اختلافات بڑھتے گئے اور مہندر سنگھ کی موت کے بعد جانشینی کا تنازع ایک بار پھر سامنے آ گیا۔
25 نومبر کو مہندر سنگھ کے اکلوتے بیٹے وشوراج سنگھ کی بطور میواڑ کے نئے مہارانا کی تاج پوشی کی رسم چتتورگڑھ کے تاریخی فتح پرکاش محل میں منعقد ہوئی۔
مہندر سنگھ کی جانب سے اودے پور کی ڈسٹرکٹ عدالت میں دائر کیس تقریباً 37 سال تک چلتا رہا۔ بالآخر عدالت نے 2020 میں اس مقدمے کا فیصلہ سنایا۔
عدالت نے حکم دیا کہ جائیداد کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے اور مہندر سنگھ اور ان کے تینوں بچوں کو ایک ایک حصہ دیا جائے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ جب تک جائیداد کی تقسیم ہو نہیں جاتی تب تک بھگت سنگھ کے تینوں بچے باری باری چار چار سال تک جائیداد کو استعمال کرسکیں گے۔
اس سے پہلے کہ ڈسٹرکٹ عدالت کے حکم پر عملدرآمد ہوتا، فیصلہ راجستھان ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔
2022 میں راجستھان ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ کورٹ کے فیصلے پر حکم امتناعی جاری کر دیا اور حکم دیا کہ جب تک عدالت کا فیصلہ نہیں آجاتا تمام جائیداد اروند سنگھ کے پاس رہیں گی۔
سوموار کو کیا ہوا؟
تاجپوشی کے بعد جب سوموار کے روز وشواراج سنگھ اپنے حامیوں کے ہمراہ اودے پور پہنچے تو انھیں سٹی پیلس میں داخل ہونے نہیں دیا گیا۔
اس دوران پولیس اور وشواراج سنگھ کے حامیوں کے درمیان تصادم ہوا جس کے بعد انتظامیہ نے اودے پور سٹی پیلس کے گرد و نواح میں دفعہ 163 نافذ کر تے ہوئے پانچ سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی لگادی۔
اکلنگجی مندر اور سٹی پیلس کا انتظام اکلنگجی ٹرسٹ کے زیرِ انتظام ہے جس کے چیئرمین اروند سنگھ ہیں۔
سوموار کے روز ہی مہارانا میواڑ چیریٹیبل ٹرسٹ اور ایکلنگجی ٹرسٹ کی جانب سے مقامی اخبارات میں پبلک نوٹس شائع کیے گئے جس میں کہا گیا کہ کسی بھی غیر مجاز شخص کو داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔
وشواراج سنگھ کا کہنا تھا کہ انھیں مندر میں داخل ہونے سے روکنا غیر قانونی ہے۔ ’جائیداد کا تنازع الگ چیز ہے لیکن اب جو ہو رہا ہے وہ قانون اور روایات کے منافی ہے۔‘
دوسری جانب اروند سنگھ کے بیٹے لکشے راج سنگھ کا کہنا تھا کہ ’وہ قانونی طور پر اپنے گھر کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ عدالت جا سکتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ انکلگجی مندر ہر کسی کے لیے کھلا ہے۔ ’مندر کو بند نہیں کیا گیا لیکن یہ طاقت کا مظاہرہ کرنے کی جگہ نہیں۔‘