کرم کے علاقے بگن کے شہریوں کے مطابق ان کا گاؤں مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے کیونکہ علاقے میں کشیدگی کی وجہ سے لوگوں نے یہاں سے نقل مکانی کر لی۔ گھروں میں اکا دکا مرد موجود ہیں جو اپنے تباہ شدہ مکانوں پر پہرہ دے رہے ہیں۔ بی بی سی نے یہاں کے کچھ رہائشیوں سے بات کر کے علاقے کی موجودہ صورتحال کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں گذشتہ ڈیڑھ ہفتے سے تشدد جاری ہے اور جھڑپوں کے باعث زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے مخالف دھڑوں سے امن جرگے کے مذاکرات کے بعد بھی جنگ بندی پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
حکومت نے چار روز پہلے فریقین سے ملاقات کے بعد سیز فائر کا اعلان کیا تھا اور اس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ فریقین یرغمال افراد کو رہا کر دیں گے اور لاشیں بھی اپنے اپنے علاقوں کو واپس بھیجی جائیں گی۔ مذاکرات کے بعد جنگ بندی پر اتنا عمل ضرور ہوا کہ لاشیں واپس کر دی گئی ہیں اور یرغمالی بھی رہا کر دیے گئے لیکن ایک دوسرے پر حملوں کو سلسلہ بدستور جاری ہے۔
علاقے میں مواصلات کے رابطے منقطع ہیں اور بڑی تعداد میں لوئر کرم کے متاثرہ علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ تشدد کی تازہ لہر میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے ہیں۔
جمعرات کو ہونے والی جھڑپوں میں متعدد افراد کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان میں تین کی تصدیق کی گئی، جن کی لاشیں لوئر کرم کے ہسپتال صدہ میں لائی گئی ہیں۔
لوئر کرم کی تحصیل صدہ سے ڈاکٹر رحیم نے بتایا ہے کہ جمعرات کے روز جھڑپوں سے ان کے ہسپتال میں تین لاشیں لائی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ 21 نومبر کو اپر کرم سے پشاور اور پشاور سے اپر کرم اور صوبے کے دیگر علاقوں کو جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا تھا جس میں ابتدائی طور پر تو 44 افراد ہلاک ہوئے لیکن پانچ افراد بعد میں ہسپتالوں میں دم توڑ گئے تھے۔
اس کے بعد اگلے روز اپر کرم کے علاقے علیزئی سے لوئر کرم کے علاقے بگن اور قریبی دیہات میں مسلح افراد نے حملہ کیا اور بازار میں دکانوں اور مکانات کو آگ لگا دی گئی۔ اس جھڑپ میں 32 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
’بگن ویران ہو گیا‘
لوئر کرم کے علاقے بگن سے شہریوں نے بتایا ہے کہ ان کا گاؤں مکمل طور پر خالی ہو چکا کیونکہ لوگوں نے کشیدگی کی وجہ سے نقل مکانی کر لی۔ گھروں میں جو اکا دکا مرد موجود ہیں وہ اپنے تباہ شدہ مکانوں پر پہرہ دے رہے ہیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ لوئر کرم سے 300 سے زیادہ خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں جن میں سے کچھ ٹل، سروخیل، سرزدان، دوآبہ، ہنگو، کوہاٹ اور پشاور کے علاقوں میں چلے گئے ہیں۔
محمد عالم سکول ٹیچر ہیں اور لوئر کرم کے علاقے بگن کے رہائشی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خاندان کے لوگ محفوظ مقامات کی جانب چلے گئے ہیں لیکن وہ بگن میں ہی رک گئے ہیں کیونکہ یہاں اپنے تباہ شدہ مکان کے ملبے کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔
’میں ابھی اگر بتاؤں تو پورا گاؤں ویران ہے، بازار اور دکانیں جل چکی ہیں، ڈسپرین کی گولی بھی لینے جائیں تو نہیں ملتی، چائے کی پتی اور چینی تک دکانوں پر نہیں۔ قریب کے علاقوں سے اگر لوگ آتے ہیں تو وہاں سے سامان لے آتے ہیں، کچھ لوگ کھانے پینے کی چیزیں بھجوا دیتے ہیں، بس اسی طرح گزارہ کر رہے ہیں۔‘
محمد عالم نے مزید بتایا کہ جس وقت بگن پر حملہ ہوا وہ شام کا وقت تھا اور وہ گھر میں موجود تھے۔
’اچانک فائرنگ شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ علیزئی کے علاقے سے حملہ ہو گیا۔ بس پھر سب پریشان تھے کہ کیا کریں؟ پہلے تو خواتین اور بچوں کو گھروں سے نکالا۔ گھروں سے نکلنا اتنا آسان نہیں تھا۔ پہلے تو پہاڑ پر چڑھ گئے اور پھر قریبی گاؤں پہنچ کر وہاں سے بچوں کو محفوظ مقامات کی جانب روانہ کیا۔‘
’ماں کی حفاظت بڑا چیلنج تھا‘
محمد ریحان کا تعلق بھی بگن سے ہے۔ وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور پشاور میں ایک نیوز چینل کے لیے کام کرتے ہیں لیکن 22 نومبر کو وہ بگن میں چھٹی پر گئے ہوئے تھے۔
محمد ریحان نے بتایا کہ وہ وقت بہت مشکل تھا۔ ’میں اپنے اہلخانہ کے ساتھ گھر میں موجود تھا، ہم کھانے کے دسترخوان پر بیٹھے تھے کہ اچانک شور شرابا ہوا اور پھر فائرنگ اور چیخوں کی آوازیں سنائی دیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہم نے باہر دیکھا تو معلوم ہوا کہ علاقے میں حملہ ہو گیا۔ میں نے فوراً اپنے بچوں کو اپنے کزنز کے ساتھ گاڑی میں بھیجا اور اس انتظار میں تھا کہ گاڑی واپس آئے گی تو میں اپنی والدہ اور والد کے ساتھ جاؤں گا لیکن گاڑی واپس نہ آ سکی اور ہم نے پیدل جانے کا فیصلہ کیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میری والدہ کی عمر 55 سال ہے اور وہ بہت مشکل سے میرے ساتھ دشوار راستوں سے جا رہی تھی۔ گھر سے نکلنے پر میں والدین کا اور وہ میرا خیال رکھ رہے تھے کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس پیدل سفر کے دوران وہ حملہ آوروں کے ہاتھ آنے لگے تھے مگر انھوں نے اپنی اور اپنے والدین کی جان ایک نالے میں چھپ کر بچائی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب حملہ آور ہمارے قریب آئے تو اس وقت ہم نالے میں چھپ گئے، وہاں سے نکلے تو درختوں اور جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گئے۔ جب ہم محفوظ مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ میری والدہ کی چادر پر گولیاں لگنے کے نشان تھے لیکن خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہی تھیں۔‘
محمد نبی جان بھی پشاور کے ایک صحافی ہیں اور ان کا تعلق بھی بگن کے قریب مندوری کے علاقے سے ہے۔ وہ بھی اپنی فیملی کو پشاور منتقل کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جس حد تک تشدد ہوا اور جس طریقے سے حملےاور جھڑپیں ہوئی ہیں، ایسا نہیں لگتا کہ حالات اتنی جلدی اب معمول پر آ سکیں گے۔‘
کرم تشدد کی وجہ قبائلی تنازعات
ضلع کرم میں تشدد کے واقعات کی تاریخ پرانی ہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پاکستان سٹڈیز سنٹرکے پروفیسر فرمان اللہ کہتے ہیں کہ ضلع کرم میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حالیہ تاریخ میں 1961 میں شروع ہوئے جن میں بڑی ہلاکتیں ہوئیں اور پھر ہر دس یا پندرہ سال کے وقفے کے بعد اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے اور سنہ 2007 میں ہونے والے تشدد کے واقعات میں بہت ہلاکتیں ہوئیں تھی۔
انھوں نے بتایا کہ اس کی بنیادی وجوہات میں قبائلی تنازعات خاص طور پر زمین کے تنازعے،جنونیت، عدم اعتماد، اسلحے کی فراوانی اور کمزور حکومت شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ افغان جنگ کے اثرات اور پھر شدت پسند تنظیموں کی موجودگی سے بھی تشدد کے ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر زاہد علی کا تعلق ضلع کرم کے علاقے پاڑہ چنار سے ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ واقعات چاہے وہ ایک قافلے پر حملہ ہو یا اس کے رد عمل میں حملے کیے گئے ہوں، ان کو درست نہیں کہا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ پے در پے واقعات حکومت کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں اور ایسے گروہ یا افراد جو مذہب اور مسلک کو استعمال کرتے ہیں ان کو قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ اب یہ واقعات اس لیے بھی زیادہ سامنے آ رہے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے خبر پھیل جاتی ہے۔
حکومت اس بارے میں کیا کر رہی ہے؟
کرم میں سرکاری حکام سے معلومات کا حصول یا انتظامیہ کا موقف حاصل کرنا انتہائی مشکل بن گیا ہے کیونکہ علاقے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے جبکہ ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس افسر بھی رابطے سے گریز کر رہے ہیں۔
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ واقعات کے بعد حکومت نے اہل تشیع اور اہل سنت کے ساتھ الگ الگ جرگے کیے ہیں اور اس میں انتظامیہ کے علاوہ فوجی افسران بھی موجود تھے۔
’یہ فیصلہ ہوا تھا کہ قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ ان میں دونوں جانب سے خواتین بھی تھیں اور لاشیں واپس کرنے کی بات ہوئی تھی اور دس روز کے لیے جنگ بندی کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک معمولی جھڑپوں کی بات ہے تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ یہ بڑا علاقہ ہے یہاں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے دیہات اور وادیاں ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگر کسی ایک گاؤں میں لڑائی ہو رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پورے ضلع میں جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
انھوں نے کہا ’اگر کہیں کوئی بڑا حملہ کرتا ہے تو پھر جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہو جائے گا لیکن انتظامیہ کی کوشش ہے کہ کسی طرح بڑے حملے کی نوبت نہ آئے، سیز فائر جاری رہے اورصلح کے لیے کوششیں کی جائیں تاکہ ضلع میں مکمل امن قائم ہو سکے۔‘
کرم کے باسی راستوں کی بندش کے باعث پھنس گئے
ضلع کرم میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے حالات کشیدہ ہیں۔ ان پرتشدد حملوں کی وجہ تنازعہ زمین کا ٹکڑا ہوتا ہے جو بڑھ کر فرقہ وارانہ تشدد کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ کارروائیاں اور حملے کسی ایک گاؤں یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ پانچ سے چھ ایسے مقامات ہیں جہاں دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں سے حملے ہوتے ہیں۔
اپر کرم سے ملک کے دیگر اضلاع کے لیے راستہ لوئر کرم سے ہو کر گزرتا ہے اور 12 اکتوبر کے بعد سے راستوں کی بندش کی وجہ سے زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے جہاں روز مرہ استعمال کی اشیا کی قلت پیدا ہو گئی۔
اس علاقے میں لوگ مجبور ہیں کہ وہ علاج کے لیے شہر سے باہر نہیں جا سکتے، ان کی پاس تیل، ادویات اور دیگر اشیا ختم ہو رہی ہیں۔
ماضی میں اپر کرم کے لوگ افغانستانکے راستے سے ہو کر واپس پاکستان میں دوسرے علاقے سے داخل ہو کر اپنی منزل کی طرف جاتے تھے مگر اب سرحد پر سختی کے باعث یہ بھی آسان نہیں رہا۔
بیرون ممالک سے آنے والے کرم کے باسی راستوں کی بندش کے باعث اپنے علاقوں کو نہیں جا سکتے اور جو اپنے علاقے میں پھنس گئے ہیں وہ اپنی بیرون ملک یا دیگر شہروں میں نہیں جا سکتے۔