پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں جاری فرقہ وارانہ جھڑپوں میں مزید 13 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جس کے بعد اموات کی کُل تعداد 124 تک جا پہنچی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ضلع کرم کے ایک مقامی سرکاری اہلکار نے تصدیق کی کہ گذشتہ دو دنوں میں جھڑپوں کے نتیجے میں مزید 13 افراد ہلاک جبکہ 50 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کی شدید کمی ہے اور کوئی بھی فریق جنگ بندی کے حکومتی احکامات کی تعمیل کرنے کو تیار نہیں ہے۔‘پشاور میں ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار نے بھی نام ظاہر نہ کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 124 ہو گئی ہے۔خیبرپختونخوا کی حکومت نے 24 نومبر کو ضلع کرم میں سات دن کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔افغانستان کی سرحد سے متصل ضلع کرم میں پرتشدد قبائلی جھگڑوں کی طویل تاریخ ہے جن میں حالیہ چند برسوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اس علاقے میں ایک بڑی قبائلی لڑائی 2007 میں شروع ہوئی تھی جس کے چار برس بعد ایک جرگے کے نتیجے میں وہ تنازع حل ہوا تھا۔ضلع کرم میں حالیہ لڑائی کا آغاز رواں ماہ کے اوائل میں اس وقت ہوا جب لوئر کرم کے علاقے اوچٹ میں مسافر گاڑیوں کے ایک قافلے پر حملے کے نتیجے میں 41 افراد ہلاک ہوئے۔قافلے پر اس وقت حملہ ہوا جب پاڑہ چنار میں مظاہرے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے کئی روز سے بند سڑک کو جزوی طور پر کھولنے کا فیصلہ کیا تھا اور کہا تھا کہ گاڑیوں کو قافلے کی صورت میں لے جایا جائے گا۔