پاکستانی حکام نے سنیچر کو تصدیق کی ہے کہ صوبہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں نے دو مختلف حملوں میں ایک زیرِتعمیر ڈیم اور لیویز کی چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا ہے۔عرب نیوز کے مطابق پاکستانی حکام کے صوبے میں مسلح گروہوں کے خلاف آپریشن کے اعلان کے چند دنوں کے بعد یہ حملے ہوئے ہیں جن میں چھ مزدوروں کو اغوا کر لیا گیا اور سرکاری اہلکاروں کا اسلحہ بھی چھین لیا گیا۔یہ حملے جمعرات کی رات دیر گئے نوشکی اور خاران اضلاع کی سرحد کے ساتھ ہوئے۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا لیکن کم آبادی والا صوبہ ہے جس کی افغانستان اور ایران سے سرحدین ملتی ہیں، اور یہ اربوں ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کا مرکز بھی ہے۔
یہ خطہ دو دہائیوں سے علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کی شورش کا مرکز بنا ہوا ہے جبکہ حالیہ مہینوں میں پُرتشدد واقعات میں شدت آئی ہے۔ رواں برس اگست میں صوبے میں متعدد مربوط حملے ہوئے جس میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ شہاب علی شاہ نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نامعلوم مسلح افراد نے جمعرات کی رات ضلع نوشکی میں ایک ڈیم کی تعمیر کی جگہ پر حملہ کیا اور چھ مزدوروں کو اغوا کر لیا۔‘ مزدور ایک پرائیویٹ کنسٹرکشن کمپنی میں کام کر رہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ’ایک اور واقعے میں مسلح افراد نے زرین جنگل کے علاقے میں لیویز چیک پوسٹ پر حملہ کیا اور فوجیوں سے تین سب مشین گنیں چھین لیں۔‘ تاہم حملے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے جمعے کو حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لیویز سے ہتھیار چھینے اور تعمیراتی کمپنی کے عملے کو ’گرفتار‘ کیا۔خیال رہے کہ رواں مہینے کے آغاز میں وزیراعظم شہباز شریف نے کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش بم حملے میں فوجی اہلکاروں سمیت تقریباً 25 افراد کی ہلاکت کے بعد حملوں میں ملوث علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف بلوچستان میں ’جامع فوجی آپریشن‘ کی منظوری دی تھی۔بلوچ علیحدگی پسند پاکستان میں چینی ورکرز کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، جس کی وجہ سے چین نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ انہیں فول پروف سکیورٹی فراہم کریں۔