کراؤن پراسیکیوشن سروس کا کہنا تھا کہ یہ ’پیچیدہ کیس‘ تھا، جس میں غیر ملکی حکام کے ساتھ مل کر تفتیش کرنا پڑی تاہم انھوں نے ’آج سارہ کے لیے انصاف حاصل کر لیا۔‘
برطانیہ کی ایک عدالت نے 10 سالہ سارہ شریف کے قتل کے الزام میں گرفتار ان کے پاکستانی نژاد والد اور سوتیلی والدہ کو مجرم قرار دے دیا ہے۔
عدالت سارہ کے والد عرفان شریف اور سوتیلی والدہ بینش بتول کو 17 دسمبر کو سزا سنائے گی۔
سارہ کے چچا اور عرفان شریف کے بھائی فیصل ملک کو اس کیس میں قتل کے الزام میں تو نہیں تاہم ایک بچے کی موت کا سبب بننے یا ایسا ہونے دینے پر مجرم قرار دیا گیا ہے۔
کراؤن پراسیکیوشن سروس نے کہا کہ یہ ’پیچیدہ کیس‘ تھا، جس میں غیر ملکی حکام کے ساتھ مل کر تفتیش کرنا پڑی تاہم انھوں نے ’آج سارہ کے لیے انصاف حاصل کر لیا۔‘
یاد رہے کہ سارہ شریف کی زخموں سے چُور لاش گذشتہ سال 10 اگست کو برطانیہ میں ووکنگ کے علاقے میں ایک گھر سے ملی تھی۔ استغاثہ کے مطابق سارہ پر ’شدید اور مسلسل تشدد‘ کیا گیا تھا۔
سارہ شریف کی لاش ملنے سے ایک ہی دن قبل ان کے اہلخانہ پاکستان روانہ ہو گئے تھے۔
جج نے فیصلہ سنانے سے قبل عدالت میں موجود افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ لمحات بہت تناؤ والے ہیں تاہم وہ سب کو خاموش رہنے اور عدالت کے احترام کی یاد دہانی کرواتے ہیں۔
جس وقت عدالت نے فیصلہ سنایا اس وقت عدالت کے کٹہرے میں کھڑی بینیش بتول اور سارہ کے چچا فیصل ملک رو پڑے تاہم سارہ کے والد عرفان بے تاثر چہرے کے ساتھ کھڑے رہے۔
یاد رہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران چھ دن تک سارہ کے والد عرفان شریف نے تمام الزامات سے انکار کیا تھا تاہم مقدمے کی کارروائی کے ساتویں روز انھوں نے ڈرامائی طور پر اعتراف جرم کر لیا تھا۔
عدالت کے روبرو سارہ شریف کے والد نے اعتراف کیا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو کئی ہفتے تک متعدد بار پرزور طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا تھا کہ سارہ میری وجہ سے مری۔
’سارہ کے جسم پر دانتوں اور گرم استری سے آنے والے زخموں کے نشان‘
کراؤن پراسیکیوشن سروس کی لیبی کلارک نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ہم میں سے کوئی بھی تصور نہیں کر سکتا کہ سارہ کے ساتھ اس کی مختصر زندگی کے آخری چند ہفتوں میں کتنا خوفناک اور سفاکانہ سلوک ہوا۔ سارہ کو لگنے والی چوٹیں بہت خوفناک تھیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سارہ کی موت کے بعد 999 پر کال کرنے کی بجائے ان تینوں افراد نے فوری طور پر ملک سے فرار ہونے کا منصوبہ بنایا۔ انھوں نے صرف اپنے بارے میں سوچا کہ وہ کسی طرح بحفاظت پاکستان پہنچ جائیں اور پولیس کو سارہ کی موت کے بارے میں لا علم رکھا۔‘
واضح رہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سارہ کے جسم پر ’انسانی دانتوں سے کاٹے جانے کے نشانات سمیت گرم استری اور گرم پانی سے آنے والے زخموں کے نشان‘ بھی تھے۔
اس سے قبل پراسیکیوٹر وکیل ایملن جونز نے عدالت کو بتایا تھا کہ خاندان کے گھر کے باہر سے خون آلود کرکٹ بیٹ، ایک دھاتی ڈنڈہ، ایک بیلٹ اور رسی سمیت ایک پن ملی جس پر سارہ کا ڈی این اے پایا گیا۔
سارہ شریف 11 جنوری 2013 کو سلوو میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ان کے والد عرفان شریف پاکستان سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ آئے اور 2009 میں ووکنگ میں انھوں نے سارہ کی والدہ اولگا ڈومن سے شادی کی تھی۔
سارا کے قتل کا واقعہ سامنے آنے سے قبل عرفان شریف کے ساتھ سارہ کی سوتیلی ماں بینیش بتول، ان کے دیگر پانچ بچے اور سارہ کے چچا فیصل ملک ساتھ رہا کرتے تھے۔
سارہ کے والدین اور چچا کی گرفتاری
سارہ شریف کی ہلاکت کی تحقیقات میں پولیس کو پوچھ گچھ کے لیے مطلوب ان کے والد، سوتیلی والدہ اور چچا کو پاکستان سے برطانیہ پہنچنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
سرے پولیس کے مطابق یہ تینوں افراد سارہ کی ہلاکت سے قبل ووکنگ میں رہائش پذیر تھے تاہم پولیس کو سارہ کی میت ملنے سے ایک روز قبل یہ پاکستان آ گئے تھے۔
پاکستان پہنچنے کے بعد سے سارہ کے والد، سوتیلی والدہ اور چچا روپوش ہو گئے تھے اور حکام ان کی تلاش میں سرکرداں تھے۔
اسی دوران پانچ ستمبر 2023 کو سارہ شریف کے والد اور ان کی سوتیلی والدہ نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ وہ برطانیہ میں حکام کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس فوٹیج میں سارہ کے والد عرفان خاموش دکھائی دے رہے تھے جبکہ ان کی سوتیلی والدہ بینش بتول کو ایک نوٹ بُک سے پڑھ کر بیان دیتے دیکھا جا سکتا تھا۔
سارہ کی سوتیلی والدہ نے اپنے اس ویڈیو پیغام میں سارہ کی موت کو ایک حادثہ قرار دیا تھا اور اس حوالے سے دو جملوں میں انتہائی مختصر بات کی تھی۔
بینش بتول نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’ہمارے روپوش ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ڈر ہے کہ پاکستانی پولیس تشدد کر کے ہمیں مار ڈالے گی۔‘