اگر ہمسری لنکا سے ڈینگی مچھر کے خاتمے کے لیے تکنیکی امداد لے سکتے ہیں، سموگ کے خلاف چینی تجربے سے فائدہ اٹھانے کا سوچ سکتے ہیں اور شمالی کوریا کی میزائل ٹیکنالوجی سے استفادہ کر سکتے ہیں تو اس کا ڈیجیٹل ماڈل کیوں نہیں امپورٹ کر سکتے؟
اس برس مئی میں بری فوج کے فارمیشن کمانڈرز کی 83ویں کانفرنس میں پہلی بار سوشل میڈیا پر آزادیِ اظہار کے پردے میں ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کا ذکر ہوا اور اسے لگام دینے کے لیے سخت قوانین بنانے کا مطالبہ ہوا۔
نومبر میں فارمیشن کمانڈرز کی 84ویں کانفرنس نے بھی یہ مطالبہ دہرایا۔ جبکہ مئی اور نومبر کے درمیانی مہینوں میں سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے تقریباً ہر خطاب میں سوشل میڈیا کی بے راہ روی کے لتے لیے۔
اگر عسکری قیادت کی جانب سے متواتر یہ مطالبہ نہ بھی ہوتا تب بھی پاکستان میں آزادیِ اظہار اور ڈیجیٹل آزادی کے بارے میں متعلقہ بین الاقوامی فورمز کی رائے میں پاکستان کا ریکارڈویسا ہی ہے جیسا کہ مقتدر حلقے چاہتے ہیں۔
مثلاً صحافیوں کی سرکردہ بین الاقوامی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی موجودہ برس کی پریس فریڈم انڈیکس میں شامل 180 ممالک میں پاکستان کا نمبر 152 ہے۔
امریکی تھنک ٹینک ’فریڈم ہاؤس‘ کی بہتر ممالک پر مشتمل تازہ انڈیکس میںانٹرنیٹ کی آزادی کے لیے جن آٹھ شرائط کو بنیادی کسوٹی قرار دیا گیا، پاکستان اُن میں سے سات شرائط پر پورا نہیں اُترتا۔
فریڈم ہاؤس انڈیکس میں پاکستان کو چین، ترکمانستان، اریٹیریا، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت اُن 21 ممالک کی فہرست میں ڈالا گیا ہے جہاں انٹرنیٹ ٹریفک پر سب سے زیادہ پابندیاں ہیں۔
ہم چاہیں تو باآسانی رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز اور فریڈم ہاؤس کی رپورٹوں کو متعصبانہ قرار دے کر مسترد کر سکتے ہیں کیونکہ پاکستان نے خود انٹرنیٹ پر بے مہار آزادی اور غیر ذمہ دارانہ و خطرناک موادکو لگام دینے کے لیے 1916 سے ایک جامع ضابطہ ’پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016‘ ( پیکا)نافذ کر رکھا ہے۔
اس ایکٹ کو نوکیلے دانت دینے کے لیے رواں برس میں مبینہ فائر وال کا بھی اضافہ کیا گیا تاکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو حسبِ ضرورت معطل،سست یا کنٹرول کیا جا سکے۔
مگر لگتا ہے کہ یہ انتظامات بھی ناکافی ہیں۔ معاملہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ اور انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے اور ہزاروں نقصان دہ ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے ذمہ دار ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)کے بس سے بھی باہر نظر آتا ہے۔
ٹوئٹر المعروف ایکس پلیٹ فارم اور وی پی این کے خلاف جہاد بھی اب تک بے اثر ثابت ہو رہا ہے۔ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن اتھارٹی بھی امیدوں پر پورا نہ اتر سکی لہذا اسے بھی لپیٹ دیا گیا۔
چنانچہ اب ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی اور نیشنل فورینزکس اینڈ سائبر کرائم ایجنسی ( نفکا) بنائی جا رہی ہے۔ نفکا ناصرف بے مہار انٹرنیٹ کو لگام دینے والے تمام اداروں کو چھتری فراہم کرے گی بلکہ آئینی اداروں کے خلاف پروپیگنڈے اور توہین آمیز مواد پھیلانے والوں تک بھی پہنچے گی ( آئینی اداروں سے مراد فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ، وفاقی و صوبائی حکومتیں وغیرہ وغیرہ)۔
پاکستان کے انگریزی جریدے ’ڈان‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق نئی اتھارٹی کے ذریعے جعلی تصویروں، جھوٹی خبروں اور سائبر ہراسانی کا سدِباب ہو گا۔ دہشت گرد نظریات اور نفرتکے فروغ، قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے والے بے بنیاد پروپیگنڈہ بازوں کا نہ صرف گریبان پکڑا جائے گا بلکہ انھیں خصوصی ٹریبونلز سات برس تک قید اور بیس لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا سنا سکیں گے۔
رپورٹ کے مطابق اس سزا کے خلاف سوائے ٹریبونل کے کسی اعلیٰ و ادنی عدالت میں اپیل نہیں ہو سکے گی، نہ ہی اس فیصلے کو چیلنج کیا جا سکے گا، نہ ہی وفاقی و صوبائی و بلدیاتی حکومت کو جواب دہی کے لیے فریق بنایا جا سکے گا۔
رپورٹ کے مطابق نفکا کے بورڈ آف گورنرز کا سربراہ وزیرِ داخلہ، سیکریٹری داخلہ نائب سربراہ اور نفکا کا ڈائریکٹر جنرل بورڈ کا سیکریٹری ہو گا۔ بورڈ میں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجینس، انٹیلیجینس بیورو، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، خزانہ اور قانون کی وزارتوں کے سیکریٹری اور متعلقہ ریجنز کے پولیس سربراہ شامل ہوں گے یعنی سرکار سے باہر کا کوئی نمائندہ نہیں ہو گا۔
فی الحال حکومت اتھارٹی کے مسودے پر سیاسی اتحادیوں کو اعتماد میں لے رہی ہے۔ اس مشاورتی عمل سے سول سوسائٹی اور ڈیجیٹل حقوق سے متعلق تنظیموں کو باہر رکھا گیا ہے۔
امید ہے کہ نئے اداروں کے قیام سے ڈیجیٹل دہشت گردی، قوم و ملک کے خلاف سازشی پروپیگنڈے اور ہراسانی کا جن قابو میں آ جائے گا۔ اگر قابو میں نہ آئے تو ہماری طرف سے صاحبِ فراست محبِ وطن حکمران اشرافیہ کے لیے ایک اور تیر بہ ہدف ماڈل پیشِ خدمت ہے اور وہ ہے شمالی کوریا کا ڈیجیٹل ماڈل۔
اگر ہمسری لنکا سے ڈینگی مچھر کے خاتمے کے لیے تکنیکی امداد لے سکتے ہیں، سموگ کے خلاف چینی تجربے سے فائدہ اٹھانے کا سوچ سکتے ہیں اور شمالی کوریا کی میزائل ٹیکنالوجی سے استفادہ کر سکتے ہیں تو اس کا ڈیجیٹل ماڈل کیوں نہیں امپورٹ کر سکتے؟
یہ ماڈل بہت سادہ ہے اور ’نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری‘ کے اصول پر کام کرتا ہے۔ اس کے پیچھے سوچیہ ہے کہ عام آدمی کو اتنی ہی آزادی اور علم دینا چاہیے جو بہت ہی ضروری ہو اور آزادی کی زیادتی سے اس کی نفسیات نہ بگڑے۔
مثلاًشمالی کوریا کے عام آدمی کو جو ریڈیو، ٹی وی اور اخبار میسر ہیں اُن کے ذریعے وہ ملک میں ہونے والے مثبت اقدامات اور اپنی فلاح و بہبود کے لیے حکمران خاندان کی سوچ سے مکمل باخبر رہتا ہے، باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے کیا نہیں یہ اس کا دردِ سر نہیں۔
عوام کو ذہنی خلجان اور موازنے کی کنفیوژن سے بچانے کے لیے حکومت کے منظور شدہ ایسے ریڈیو اور ٹی وی سیٹس ہی فراہم کیے جاتے ہیں جن پر مقامی نشریاتی سگنلز ہی سُنے اور دیکھے جا سکیں۔
عام آدمی کو انٹرنیٹ کی نہیں انٹرانیٹ کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے مطلب کی سرکاری ویب سائٹس ہی دیکھ سکے اور ایک دوسرے سے رابطے میں رہ سکے۔ یہ انٹرانیٹ صرف کوانگ میونگ نامی سرکاری ڈیجیٹل سرور کے ذریعے ہی چلتا ہے اور موبائل فون سروس بھی اِسی سرور سے منسلک ہے۔
جن لوگوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے بیرونی دنیا سے رابطہ درکار ہے، ان کی تعداد دو کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی میں صرف دس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان میں حکمران خاندان، حکمران خاندان کے حاشیہ بردار، قومی سلامتی کے نگراں حساس ادارے، دفاع سے منسلک اعلی اہلکار، دفترِ خارجہ کے گنے چنے افسر، قومی کامیابیوں کا پروپیگنڈہ کرنے والا محکمہِ اطلاعات، غیر ملکی سفارتکار، بیرونِ ملک تعینات شمالی کوریائی سفارتکار اور بھروسے کے چند امپورٹر ایکسپورٹرز شامل ہیں۔
انٹرنیٹ سروس چائنا یونی کام اور روسی کمپنی ٹرانس ٹیلی کام کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے۔
جو غیر ملکی صحافی شمالی کوریا آتے ہیں انھیں ہوٹل کے کمروں اور کوریج کی جگہ پر بنے ہوئے میڈیا سینٹر میں عارضی انٹرنیٹ سروس مل جاتی ہے۔
آئی ٹی کے طلبا اور اساتذہ کے لیے بھی چونکہ انٹرنیٹ ضروری ہے لہذا چند منتخب یونیورسٹیوں کی انتظامیہ غیر ملکی تحقیقی، سائنسی و ٹیکنالوجیکل مواد ڈاؤن لوڈ کر کے مقامی انٹرانیٹ سسٹم پر ڈال دیتی ہے جسے متعلقہ طلبا و اساتذہ اجتماعی و انفرادی طور پر سرکار کے فراہم کردہ کمپیوٹرز پر ملاحظہ کر کے علمی پیاس بجھا سکتے ہیں۔
شمالی کوریا کے جو اہلکار بیرونِ ملک جاتے ہیں ان کے موبائل فونز اور لیپ ٹاپس میں سرویلنس چپ لگائے جاتے ہیں تاکہ وہ ملک سے باہر اغیارکے شر سے محفوظ رہیں اور حکومت ان کی خیر خیریت سے مسلسل باخبر رہے۔
جس طرح ہر طالبِ علم یونیورسٹی نہیں جاتا، اسی طرح ہر شہری کو فالتو کی ڈیجیٹل رسائی کی بھی ضرورت نہیں۔ چنانچہ شمالی کوریا بیرونی دنیا کی آلائشوں سے بھی پاک ہے اور جسے جتنی اطلاعاتی ڈیجیٹائزشن کی ضرورت ہے وہ بھی میسر ہے۔
پاکستان فروری میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) ہر ماجھے ساجے کی نہیں صرف سرکاری اہلکاروں کی ضرورت ہے۔
چنانچہ ٹوئٹر کا ’سلیکٹڈ ماڈل‘ کامیابی سے چل رہا ہے۔ اب اس ماڈل کو شمالی کوریا کی طرز پر اور جامع انداز میں توسیع دینے کی ضرورت ہے تاکہ روز روز نت نئے قوانین اور اتھارٹیوں کے قیام، فالتو کی ٹینشن اور بھاگا دوڑیسے ایک بار ہی نجات مل جائے۔
وہ جو کہتے ہیں کہ آگہی سے بڑا عذاب کوئی نہیں، یہ مقولہ رعایا کے لیے ہے بادشاہ کے لیے نہیں۔