ملٹی وٹامنز کا استعمال کب فائدے مند، کب نقصان دہ: ’یہ پھل سبزیوں کا نعم البدل نہیں‘

سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر نظر ڈالیں تو ان میں ملٹی وٹامن کے استعمال سے متعلق یا تو مشورے مانگے جاتے ہیں تو کبھی مفت مشورے کے طور پر لوگ اپنے نسخے شیئر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تو کیا یہ ملٹی وٹامنز اور فوڈ سپلیمنٹس ہر ایک کے لیے ایک سی تاثیر رکھتے ہیں ؟
ملٹی وٹامنز کا استعمال
Getty Images

’آپ اتنا فٹ کیسے ہیں، روزانہ کون سے ملٹی وٹامن لیتی ہیں؟ مجھے بھی بتائیں کہ میں کون سا سپیلیمنٹ لوں جس سے میرے بال اور جِلد میں آپ جیسی چمک آجائے۔‘

فیس بک پر اپنی ایک دوست کی وال پر میں نے جب یہ کمنٹس پڑھے تو ملٹی وٹامنز اور سپلیمنٹس کی پیکجنگ پر درج دعوے اور چند دوستوں کے تجربات ذہن میں تازہ ہوگئے۔

ملٹی وٹامنز کے ’جادوئی اثرات‘ کے دعوؤں سے بھرپور مارکیٹنگ ہو یا طبی سہولیات تک رسائی میں مشکلات، آج کل ہمارے اردگرد موجود بہت سے افراد اپنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ان سپلیمنٹس کا استعمال بنا ہچکچاہٹ کر جاتے ہیں۔ بیشتر وہ لوگ ہیں جو ایسا بغیر کسی ڈاکٹر کے مشورے کے کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر نظر ڈالیں تو ان میں ملٹی وٹامن کے استعمال سے متعلق یا تو مشورے مانگے جاتے ہیں تو کبھی مفت مشورے کے طور پر لوگ اپنے نسخے شیئر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

تو کیا یہ ملٹی وٹامنز اور فوڈ سپلیمنٹس ہر ایک کے لیے یکساں تاثیر رکھتے ہیں ؟ اور کیا ماسوائے خراب صحت رکھنے والوں کے، ملٹی وٹامنز کا نعم البدل ہماری روز مرہ کی خوراک سے ہمیں مل سکتا ہے؟

ان سوالوں کا جواب لینے کے لیے ہم نے ماہر غذائیت اور ڈاکٹرز کا رُخ کیا تو انھوں نے کیلشیئم، آئرن اور ملٹی وٹامنز کا بلا ضرورت اور لگاتار استعمال صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔

اور جہاں تک رہی خوبصورت جلد اور چمکدار بالوں کی بات تو اس کے لیے اومیگا تھری، پروٹین کے ساتھ وٹامن اے، ای اور سی سے بھرپور غذاؤں کے استعمال کی تجویز دی جاتی ہے۔

ماہرین کے مشوروں کی تفصیل میں جانے سے پہلے آپ کو ملواتے ہیں چند ایسے افراد سے جنھوں نے عمومی کمزوری اور تھکن کا علاج ملٹی وٹامنزمیں ڈھونڈنا چاہا۔

ملٹی وٹامنز کے مختلف لوگوں پر مختلف اثرات

فائزہ شاہد دو بچوں کی ماں ہیں۔ 30 سال کی عمر میں ہی ان کو کبھی ٹانگوں تو کبھی کمر میں درد کے مسائل کا سامنا ہے۔ بچوں کی پیدائش کے بعد وہ خود پر زیادہ توجہ نہیں دے پائیں تاہم ڈاکٹر نے ان کو معائنے کے بعد ضروری وٹامنز تجویز کیے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میری ٹانگوں، گھٹنوں اور ٹخنوں میں درد رہنے لگا تھا۔ نیچے بیٹھنا مشکل تھا، ہڈیاں چٹخنے لگتی تھیں۔ نماز پڑھنا مشکل تھا۔‘

’پھر ڈاکٹر نے کیلشیئم اور وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ دیے جن کا کورس مکمل کر کے اب میں بہتر ہوں۔ بس ڈاکٹر نے خبردار کیا تھا کہ یہ غذا کا نعم البدل نہیں، اس لیے اس کے ساتھ اچھی متوازن غذا ضروری ہے۔‘

دوسری جانب تنویر مظفر کی عمر تقریبا 40 برس ہے اور وہ گذشتہ سال ڈینگی کا شکار ہونے کے بعد سے مسلسل تھکاوٹ کا شکار تھے۔

ڈاکٹرز کی تجویز کردہ ادویات سے ان کو فرق نہیں پڑا تو ایک دن اپنے انکل کو ملٹی وٹامنز کے استعمال سے مستفید ہوتے دیکھ کر انھوں نے خود بھی آزمانے کی ٹھانی۔

بی بی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’کچھ عرصہ پہلے میرے ایک انکل بیرون ملک سے آ کر شدید بیمار ہو گئے کافی دن ریکوری میں لگے۔ انھوں نے بیٹے کے ذریعے بیرون ملک سے ملٹی وٹامنز منگوا کر استعمال کیے تو وہ بھلے چنگے ہو گئے، اس چیز نے مجھے متاثر کیا۔‘

تنویر نے وہی ملٹی وٹامنز اپنے لیے خریدے اور کھانا شروع کیے لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات۔

’دو ڈھائی مہینے کے استعمال کے بعد مجھے اس کا ’زیرو‘ فائدہ ہوا۔ پھر کچھ ہفتوں بعد ٹانگوں میں شدید درد ہوا تو ٹیسٹ کروانے پر وٹامن ڈی کی کمی آئی ۔ ڈاکٹر کے کہنے پر میں نے وٹامنز ایک ماہ تک مسلسل لیے۔ ٹانگوں کا درد تو کسی حد تک کم ہوا مگر باقی تھکاوٹ اور کمزوری وہیں کی وہیں ہے۔‘

ان مثالوں کے بعد اب ہم آتے ہیں اس سوال کے جواب پر کہ ڈاکٹرز ملٹی وٹامنز کب تجویز کرتے ہیں؟ کیا روزمرہ خوراک سے ان کا حصول باآسانی ممکن ہے؟

ملٹی وٹامنز اور سپلیمنٹس
Getty Images

یہ کب نقصان دہ ہوتے ہیں؟

ملٹی وٹامنز اور سپلیمنٹس لینا کب ضروری ہوتے ہیں اور کس عمر میں انھیں استعمال کیا جانا تجویز کیا جاتا ہے؟

اس سوال کا جواب ہمیں ملا شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی ماہر غذائیت زینب غیور سے جنھوں نے سب سے پہلے واضح کیا کہ وٹامنز لینے کا تعلق صرف ہماری عمر سے نہیں بلکہ ہیلتھ کنڈیشن اور روٹین پر منحصر ہوتا ہے۔

’اگر ہم متوازن غذا لے رہے ہیں اور صحت مند طرز زندگی کا معمول اپنائے ہوئے ہیں تو عام طور پر ہمیں ملٹی وٹامن لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

’جب خواتین ملٹی وٹامن شروع کرتی ہیں تو اس کے بعض دفعہ اچھے نتائج ہوتے ہیں کیونکہ تمام وٹامننز لینا بُرا نہیں لیکن ضرورت سے زیادہ لینا نقصان دیتا ہے۔‘

زینب کہتی ہیں کہ ’بعض دفعہ ہم محسوس کرتے ہیں ملٹی وٹامن لینے کے باوجود ہم تھکاوٹ کا شکار ہیں، ہمارا کھانے کا دل نہیں کرتا تو یہ بھی کیلشیئم سپلیمنٹس کا سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’وٹامن بی کمپلییکس کو وافر مقدار میں لینا نیوروپیتھی کے مسائل پیدا کرتا ہے۔ جس میں ہاتھ پیروں کا سن ہو جانا یا بھاری محسوس ہونا، معدے میں تیزابیت جیسے مسئلے ہو سکتے ہیں۔‘

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی وقت آپ کا ڈاکٹر وٹامنز تجویز کرے لیکن آپ ضرورت ختم ہونے کے بعد بھی لیتے رہتے ہیں۔ تاہم ڈاکٹرز اس سے خبردار کرتے ہیں۔

آسان الفاظ میں دیکھیں تو مریض کو وٹامن ڈی کی کمی ہے لیکن اس کو ایک وقت میں اتنا زیادہ ڈوز دیا جائے تو وہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

فیٹ میں گھلنے والے (Fat soluble) وٹامنز میں وٹامن اے، ڈی، ای اور کے شامل ہیں۔ جبکہ آئرن یا کیلشیئم کے سپلیمنٹس غیر ضروری لیں تو جی متلانا، ڈائریا، تھکان سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ملٹی وٹامنز اور سپلیمنٹس کے بجائے غذا سے صحت
Getty Images
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری سکن میں نمی برقرار رہے اور بال نرم و ملائم رہیں تو ضروری ہے کہ ہماری غذا میں اومیگا تھری موجود ہو

ڈاکٹرز جِلد کے لیے اکثر ملٹی وٹامن تجویز کیوں کرتے ہیں؟

ڈاکٹر اکثر الگ الگ علامات پر مریضوں کو ملٹی وٹامنز تجویز کرتے ہیں، جیسے جِلد اور بالوں کے لیے۔

زینب غیور نے بتایا کہ جلد اور بالوں کو صحت مند رکھنے کے لیے سب سے بڑا حصہ پروٹین کا ہے جو انڈے، چکن، مچھلی، دالوں اور دیگر چیزوں میں بھی ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ جِلد کے لیے اکثر اومیگا تھری کی تجویز بھی کی جاتی ہے جبکہ وٹامن سی، ای اور اے رنگ دار پھلوں اور سبزیوں میں وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ بالوں کی صحت کے لیے ایک اہم وٹامن بی 12 یا بایوٹن ہے، یہ وٹامن بالوں کی لچک اور ساخت کو مضبوط بنانے کے لیے جانا جاتا ہے۔

بعض خواتین مختلف اشتہاروں سے متاثر ہو کر خود سے ہی اس کا استعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتیں۔

تاہم زینب غیور نے بتایا کہ انڈا، بادام اور ہری سبزیوں میں بایوٹن وافر مقدار میں ہوتا ہے۔ اس لیے آپ ان غذاؤں کو روزمرہ کا حصہ بنا کر بایولان حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کی گولیاں جب ہی لیں جب آپ کا ڈاکٹر تجویز کرے۔

زینب غیور کے مطابق ’ہم عموماً پروٹین کی درست مقدار نہیں لے رہے ہوتے بلکہ اس کے بجائے کابوہائیڈریٹ اور زیادہ چکنائی لے رہے ہوتے ہیں حالانکہ ہمارے عمومی صحت بشمول ہمارے بال اور جلد کے پروٹین کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔‘

وٹامن اے ای کمی سے بالوں کا روکھا پن جبکہ وٹامن سی اومیگا تھری جیسے غذائی اجزا کی کمی ہماری جلد کو بے رونق بناتی ہے۔

ملٹی وٹامنز اور سپلیمنٹس
Getty Images

تاہم ماہرین کے مطابق کچھ ہیلتھ کنڈیشنز ایسی ہوتی ہیں کہ ہمارا ڈاکٹر تجویز کرتا ہے کہ یہ سپلیمنٹس لینا ہمارے لیے ضروری ہے۔

عموماً حاملہ خواتین یا بڑھتی عمر میں جب غذا خون میں جذب نہیں ہو پا رہی ہوتی تو اس صورتحال میں بھی ڈاکٹرز ملٹی وٹامن تجویز کرتے ہیں۔

زینب غیور کے مطابق ’ملٹی وٹامن لینے میں عمر کی قید نہیں لیکن جب ڈاکٹر یہ سمجھے کہ آپ کو کسی خاص نیوٹرینٹ کی زیادہ ضرورت ہے تو اس وقت ملٹی وٹامنز لینے چاہیئں۔‘

ان کے مطابق ’بغیر ڈاکٹر کے تجویز کیے (اوور دا کاونٹر) ملٹی وٹامن کا استعمال کسی بھی صورت درست نہیں۔

’آپ بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے جا کر ملٹی وٹامن استعمال کرتے ہیں اور آپ کے جسم کو ابھی اس کی ضرورت نہیں تو بے شک وہ نیوٹرینٹ ہیں اور فوڈ کمپونینٹ ہیں لیکن ان کا غیر ضروری استعمال اور غلط استعمال نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘

ماؤں کو چاہیے کہ بچوں کو متوازن غذا کھانےکی عادت ڈالیں
Getty Images

بچوں کو ملٹی وٹامن کھلانا کتنا محفوظ

بہت سی مائیں ننھے بچوں کو دانت نکلنے کے دنوں میں خود سے وٹامن کے ڈراپس دیتی ہیں۔ یہ کتنا محفوظ ہے اور بچوں کو ملٹی وٹامن دینے کی ضرورت کب پیش آتی ہے؟

اس پر بات کرتے ہوئے شفا انٹرنیشنل کی ڈاکٹر معصومہ نے واضح کیا کہ اگر بچے کی بیلنس ڈائیٹ ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں ہے تو بغیر کسی وجہ کے بچوں کو وٹامن یا سپلیمنٹ تجویز نہیں کیے جاتے۔

’اگر بچہ بریسٹ فیڈ پر ہے تو ہم اس کو وٹامن ڈی سپیلمنٹ تجویز کرتے ہیں۔ کیونکہ عموماً دودھ پلانے والی ماؤں کا وٹامن ڈی کم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر بچے کی آئرن کی کمی آئے تو پھر آئرن دیتے ہیں۔ بڑے بچوں میں علامات واضح موجود ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر وٹامن تجویز کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق:

  • اگر تازہ پھل اور سبزیاں ہیں تو اس میں بی کمپلیکس اور وٹامن سی سمیت قدرتی طور پر وٹامن موجود ہوتے ہیں
  • میڈیکیشن کے ذریعے بچوں میں وٹامنز دینے سے اس وقت تک گریز کیا جاتا ہے جب تک کسی چیز کی بہت شدید کمی نہ آئے۔
  • وٹامن ڈی کی اضافی مقدار یا زیادتی خون میں کیلشیئم اور گردے کی پتھری کو بڑھا سکتا ہے۔

ڈاکٹر معصومہ کے مطابق وٹامن سی پانی میں گھلنے کی صلاحیت کے باعث کم نقصاندہ ہے اور اس کی اضافی مقدار اگر جسم میں جائے تو پیشاب کے راستے خارج ہو جاتی ہے۔

انھوں نے زور دیا کہ ’ماؤں کو چاہیے کہ بچوں کو متوازن غذا کھانے کی عادت ڈالیں۔‘

ملٹی وٹامنز بمقابلہ پھل سبزیاں

ماہرین غذائیتکے مطابق پھل اور سبزیوں کا نعم البدل ملٹی وٹامنز کبھی بھی نہیں ہو سکتے۔

پھل اور سبزیوں میں صرف وٹامنز نہیں بلکہ جسم کو توانا رکھنے والے اچھے کمپاؤنڈز موجود ہوتے ہیں۔

پھل اور سبزیاں فائبر بھی مہیا کرتے ہیں جس سے غذا جذب ہوتی ہے۔

زینب غیور کے مطابق ’پھل اور سبزیوں کے وٹامن ہماری لیے کبھی بھی زیادہ مقدار کا سبب نہیں بن سکتے جبکہ ملٹی وٹامن پھل اور سبزیوں کی جگہ کبھی نہیں لے سکتے۔‘

’اچھی جلد اور بال ہمارے پورے طرز زندگی کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ اگر متوازن غذا نہ لیں، صحت مند لائف سٹائل نہیں، ورزش معمول کا حصہ نہیں، غذا اچھی نہیں، ہائیجین اچھی نہیں تو ملٹی وٹامن کچھ نہیں کر سکتے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.