1971 جنگ: آرمی چیف کے دفتر سے جنرل نیازی کی تصویر ہٹانے پر سابق انڈین فوجی ناراض کیوں

سقوط ڈھاکہ کی تاریخ 16 دسمبر سے قبل انڈیا کے بہت سے سابق فوجی افسران نئی دہلی میں آرمی چیف کے دفتر سے ایک تصویر ہٹانے پر نالاں ہیں۔
یہ تصویر بیٹ مین کے آرکائيوز سے حاصل کی گئی ہے
Getty Images
یہ تصویر بیٹ مین کے آرکائيوز سے حاصل کی گئی ہے

سقوط ڈھاکہ کی تاریخ 16 دسمبر سے قبل انڈیا کے بہت سے سابق فوجی افسران نئی دہلی میں آرمی چیف کے دفتر سے ایک تصویر ہٹانے پر نالاں ہیں۔

یہ سنہ 1971 کی جنگ کی وہ تاریخی تصویر ہے جس میں پاکستانی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی (اے کے نیازی) انڈین فوج کے سربراہ جنرل جگجیت اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے دستاویزات پر دستخط کر رہے ہیں۔

انڈیا کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ تاریخی پینٹنگ گذشتہ 40 برسوں سے زیادہ عرصے سے انڈین آرمی چیف کے لاؤنج میں آویزاں تھی جہاں بری فوج کے سربراہ صدر دفتر کا دورہ کرنے والے مہمانوں سے ملاقات کیا کرتے ہیں۔

سنہ 1971 کی ہتھیار ڈالنے والی تصویر کی جگہ جو پینٹنگ لگائی گئی ہے اسے 'کَرم شیتر- فیلڈ آف ڈیڈز' یعنی ’میدان عمل‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ تصویر بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔

اکثر لوگ اس تبدیلی کا جواز جاننے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ بہت سے سابق فوجی اس کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

انڈین بری فوج کی جانب سے یا وزارت دفاع کی جانب سے اس بابت اب تک کوئی وضاحت نہیں دی گئی ہے لیکن انڈین میڈیا میں اس خبر کو بڑے پیمانے پر شائع کیا گیا ہے۔

انڈین آرمی چیف کے دفتر میں نئی تصویر کیوں لگائی گئی؟

تاحال انڈین فوج نے اس بارے میں سرکاری طور پر وضاحت نہیں کی۔ مگر اکثر لوگوں کو 1971 کی جنگ کی تصویر ہٹانے کی اطلاع اس وقت ملی جب آرمی چیف جنرل اپیندر دیویدی نے نئے پس منظر میں اپنے نیپالی ہم منصب سے ملاقات کی۔

11 دسمبر کو انڈیا کے آرمی چیف نے نیپال کے آرمی چیف جنرل اشوک راج سگدل سے اپنے دفتر میں ملاقات کی اور 'انڈیا-نیپال تعلقات کو مضبوط کرنے' کے عنوان کے تحت ایک بیان جاری کیا گیا۔ وہاں پرانی سنہ 1971 کی تصویر کی جگہ نئی پینٹنگ تھی۔

پھر 13 دسمبر کو انڈین آرمی چیف کی ویٹرنز سے ملاقات ہوئی اور اس میں بھی پس منظر میں اس نئی پینٹنگ کو دیکھا جا سکتا ہے۔

انڈین اخبار دی ہندو نے فوجی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ نئی پینٹنگ، 'کرم شیتر - فیلڈ آف ڈیڈز' کو 28 مدراس رجمنٹ کے لیفٹیننٹ کرنل تھامس جیکب نے بنایا ہے۔

اس میں فوج کو ’دھرم (مذہب) کے محافظ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو نہ صرف قوم کے محافظ کے طور پر لڑ رہی ہے بلکہ انصاف کو برقرار رکھنے اور ملکی اقدار کی حفاظت کے لیے بھی لڑ رہی ہے۔‘

ان کے مطابق اس نئی تصویر میں فوج کے ارتقا کو ’تکنیکی طور پر ترقی یافتہ، مربوط قوت‘ کے روپ میں پیش کیا گيا ہے۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی پینٹنگ کے پس منظر میں برف سے ڈھکے پہاڑ دکھائے گئے ہیں۔ اس میں دائیں طرف مشرقی لداخ کا پینگونگ تسو جھیل ہے، اور بائیں طرف اوپر گروڈا (اساطیری چڑیا) مائل پرواز ہے اور نیچے زمین پر مبینہ طور پر کرشن (ہندوؤں کے بھگوان) کا رتھ ہے۔

اس کے ساتھ زعفرانی لباس میں ملبوس ایک شخص ہے جسے بعض لوگ انڈین اساطیر میں حکمت عملی کے ماہر سمجھے جانے والا شخص چانکیہ کہہ رہے ہیں۔ اس سب کے ساتھ فوجی ٹینکس، فوجی گاڑیاں، گشتی کشتیاں، مقامی لائٹ کامبیٹ ہیلی کاپٹر اور اپاچی اٹیک ہیلی کاپٹر جیسے جدید سازوسامان بھی شامل ہیں۔

اخبار ٹیلیگراف انڈیا نے فوجی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ نئی پینٹنگ معروف رزمیہ ’مہابھارت‘ کی تعلیمات پر مبنی ہے۔

سابق انڈین فوجیوں کی طرف سے تنقید

سابق فوجی افسروں نے پرانی تصویر کو تبدیل کرنے پر نریندر مودی حکومت اور فوج کے اعلی عہدیداران کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

کسی نے اسے 'بے عزتی' سے تعبیر کیا ہے تو کسی نے اسے فوجی تاریخ پر حملہ اور ان لوگوں کی توہین قرار دیا ہے جو 1971 کی بنگلہ دیش میں لڑے اور مارے گئے۔

یاد رہے کہ انڈیا 16 دسمبر کو ’وجے دیوس‘ یعنی ’یوم فتح‘ کے طور پر مناتا ہے۔

ایئر وائس مارشل منموہن بہادر (ریٹائرڈ) نے سوشل میڈیا پلیٹفارم ایکس پر لکھا کہ ’آخر 1971 کی ڈھاکہ کی سرینڈر والی تصویر کو ہٹانے کا مقصد کیا ہے؟ دوسرے ممالک کے معززین اور فوجی سربراہان یہاں آرمی چیف سے ملتے ہیں اور انڈیا اور انڈین فوج کی تاریخ کے سب سے بڑے واقعے کی علامت دیکھتے ہیں۔ اب عجیب و غریب کوشش کس لیے؟'

شمالی فوج کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پناگ نے اپنی پوسٹ میں لکھا: ’وہ تصویر/پینٹنگ جو 1971 میں ایک متحدہ قوم کے طور پر بھی انڈیا کی پہلی بڑی فوجی فتح کی علامت ہے، اسے ہٹا دیا گیا۔‘

'سیون ہیروز آف 1971' کے مصنف مان امن سنگھ چننا نے اس کے متعلق کئی ٹویٹس کیے ہیں۔ ایک ٹویٹ میں انھوں نے لکھا: ’پہلے چیف آف آرمی سٹاف کے آفس کے پس منظر کی تصویروں سے چیووڈ کریڈو (فوجی گیت یا عزم) غائب ہو گیا اور اب پاکستان آرمی کے ہتھیار ڈالنے والی تصویر۔‘

جبکہ فیلڈ مارشل چیٹووڈے نے کہا ’لداخ کی یہ بچگانہ (نئی) پینٹنگ ایک ایسی فتح کا تصور کرتی ہے جس کا 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ میں انڈین فوج نے جو کچھ حاصل کیا، اس سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔'

’اندرا گاندھی کے قد کو کم کرنے‘ کا الزام

ایک سابق بریگیڈیر نے اخبار دی ٹیلیگراف کو بتایا کہ بظاہر یہ فیصلہ سیاست سے متاثر ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت ’1971 کی فتح کی یاد کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ یہ وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور میں ہوا تھا۔‘

اخبار نے اسے ستم ظریفی قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ تصویر کو ایک ایسے وقت میں تبدیل کیا گیا ہے جب بنگلہ دیش کے نئے حکمران عملی طور پر 1971 کے نظریات اور اس کے ہیروز سے انکار کر رہے ہیں اور آزادی کی جنگ میں سہولت فراہم کرنے میں نئی دہلی کے مقاصد پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔

ڈاکٹر جیسن فلپ نامی ایک صارف نے لکھا: ’(سابق انڈین وزیر اعظم اور کانگریس رہنما) اندرا گاندھی کے قد کو کم کرنے کے لیے آرمی ہیڈکوارٹر سے اس مشہور تصویر کو ہٹانا انتہائی قابل مذمت ہے۔‘

'93 ہزار پاکستانی فوجیوں نے انڈیا کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے جو کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑی ہتھیار ڈالنے کی تصویر ہے۔۔۔ اندرا کی توہین کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مودی نے ان 3900 انڈین فوجیوں کی توہین کی جنھوں نے پاکستان کو شکست دینے کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔‘

انھوں نے نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ’ابھی تک 2020 میں 20 انڈین جوانوں کی ہلاکت پر چین کی مذمت نہیں کی ہے۔ اتنا خوف، لیکن جھوٹی بہادری۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.