ناران سے رتّی گلی کا پیدل ٹرِپ جس نے کراچی کے ایک ٹیلی کام انجینیئر کو ٹریول سٹارٹ اپ کا بانی بنا دیا

کہاں کراچی کی این ای ڈی انجینیئرنگ یونیورسٹی کے ٹیلی کمیونیکشن گریجویٹ اور کہاں متعدد ایوارڈز اور گرانٹس حاصل کرنے والے آن لائن ٹریول اینڈ ٹورزم سٹارٹ اپ کے بانی اورنگزیب کی کہانی جتنی دلچسپ ہے اتنی ہی سبق آموز بھی۔

اورنگزیب

شرمیلے، کم گو مگر مضبوط جسم کے مالک پورٹر نذیر لالا کے ’ہاں‘ کرتے ہی ایسا لگا جیسے کندھوں سے منوں وزنی بوجھ اُتر گیا ہو۔ شاید انھیں ہمارے حال اور تھکے ہوئے چہروں پر رحم آ گیا تھا یا پھر ہو سکتا ہے کہ مالی مجبوری نے انھیں ہماری جیسی ’پتلی آسامی‘ کو بھی قبول کرنے پر مجبور کر دیا تھا، بہرحال جو کچھ بھی تھا ہم خوش تھے کہ ہمارا کام بن گیا ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے اورنگزیب عالمگیر بی بی سی اُردو کو اپنے اُس ایڈونچر ٹرپ کی کہانی سُنا رہے تھے جس نے اُن کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اورنگزیب کراچی کی این ای ڈی انجینیئرنگ یونیورسٹی کے گریجوئیٹ ہیں جنھوں نے ٹیلی کمیونیکیشن میں ڈگری حاصل کی تھی مگر اب اُن کی شہرت بطور انجینیئر نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ متعدد ایوارڈز اور گرانٹس جیت چکے ہیں اور ایک معروف آن لائن ٹریول اینڈ ٹورازم سٹارٹ اپ کے بانی ہیں۔

اورنگزیب کی کہانی جتنی دلچسپ ہے اتنی ہی سبق آموز بھی۔

ناران سے رتی گلی کا سفر جس نے اورنگزیب کی زندگی بدل دی

Naran

وہ اپنے اُس سفر کی کہانی جس سے انھیں اپنا ٹریول سٹارٹ اپ شروع کرنے کا خیال آیا، کچھ یوں سُناتے ہیں۔

’25 سال پرانے دوست عمیر اور پورٹر نذیر لالا کے ساتھ میرا یہ سفر ستمبر 2018 میں ناران سے رتی گلی پاس یا نوری پاس تک تقریباً پانچ دن پر محیط تھا۔ ناران سے کشمیر کے ٹریک میں ’کالا سر پاس‘ آخری بڑا پہاڑ ہے۔ مقامی ہونے کی حیثیت سے نذیر لالہ اُس علاقے کے چپّے چپّے سے واقف تھے، اگرچہ نذیر لالہ کی گھوڑی حاملہ تھی لیکن احتیاط برتنے اور راستے میں گھوڑی کو آرام کے لیے مناسب وقت دینے کی شرط پر انھوں نے میرا اور عمیر کا سامان منزل مقصود یعنی رتی گلی تک پہنچانے پر آمادگی ظاہر کر دی۔‘

’یہ پلان ہم نے چند دنوں پہلے ہی بنایا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جس ٹیلی کام کمپنی میں میں بطور انجینیئر کام کرتا تھا انھوں نے میری ملازمت میں توسیع کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ اگلے جاب انٹرویو میں کچھ وقت تھا۔‘

’رتی گلی ٹریک کی معلومات مجھے ایک فیس بُک پیج سے ملی تھیں۔ پتا چلا کہ یہاں چار، چار دن پیدل چلنا پڑتا ہے اور راستے میں نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ بہت پُرفضا مقام ہے لیکن ہے بہرحال جنگل۔ رات کو کیمپنگ کے دوران سکیورٹی مسائل کے علاوہ جانوروں کے حملے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔‘

’اب بڑا مسئلہ اس علاقے سے واقفیت رکھنے والے پورٹر کی تلاش تھی جو اس سفر میں ہمارا ساتھ دے سکتا۔ آن لائن کچھ رابطہ نمبر ملے مگر پھر بھی کسی پورٹر کا انتظام نہ ہو سکا۔ خیر ماضی کے ٹرپس کی طرح میں اور عمیر اللہ کا نام لے کر خود ہی نکل پڑے کہ وہیں جا کر بندوبست کر لیں گے، اور پھر کچھ دوڑ دھوپ کے بعد ہمیں نذیر لالا مل گئے، جنھوں نے ڈھائی ہزار روپے یومیہ کے عوض ہمارے ساتھ چلنے کی حامی بھر لی۔‘

’کھانا البتہ انھوں نے پکا کر ساتھ لے چلنے کا مشورہ دیا کیونکہ اُن کے مطابق جنگل بیابان میں رات کے وقت آگ جلانا اور روشنی کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔‘

سفر کے دوران سٹارٹ اپ کا خیال

رتی گلی

پاکستان کے شہری علاقوں سے بالائی مقامات کی طرف ایڈوینچر ٹورز کرنے کے شوقین افراد کے لیے سب سے مشکل کام اچھے اور قابل اعتماد پورٹرز اور ٹور گائیڈ کو ڈھونڈنا ہوتاہے۔

چونکہ اسی نوعیت کے مسئلے سے اورنگزیب کا واسطہ بھی پڑا تھا چنانچہ اُن کے مطابق اُن کے ذہن میں دورانِ سفر ایسے پورٹرز اور ٹریول گائیڈز کے لیے مخصوص پلیٹ فارم بنانے کا خیال گردش کرنے لگا جو ایکسپڈیشن ٹورز کے ماہر ہوں، مضبوط جسامت اور اعصاب رکھتے ہوئے، جنھیں راستوں کا علم ہو اور سب سے بڑھ کر وہ ایماندار ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ان مقامات پر دو طرح کے پورٹرز اور گائیڈز ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو زیادہ ہوشیار بننے کی کوشش کرتے ہیں اور سفر شروع ہونے کے بعد آپ کو بات بات پر تنگ کرتے ہیں، فرمائشیں کرتے ہیں اور آرام کا کہہ کر آپ کے سفر کی رفتار سست رکھتے ہیں۔‘

’دوسرے نذیر لالا جیسے لوگ، جو راستوں سے واقفیت رکھنے اور نیک نیتی کے ساتھ کام کرنے کے باوجود چرب زبان نہ ہونے کی وجہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ میں ایسے ہی پورٹرز کو باقی دنیا سے جوڑنا یا متعارف کروانا چاہ رہا تھا۔ ابتدا میں تو میں نے کاروبار کے بارے میں سوچا تک نہ تھا، میں صرف ایک سوشل اِنیشیئیٹِو کے تحت اِن لوگوں کی مدد کا ارادہ رکھتا تھا۔‘

مگر جب سفر کے دوران اورنگزیب کو نذیر لالہ کے مالی حالات اور تنگدستی کے متعلق علم ہوا تو انھوں نے اسی وقت یہ تہیہ کر لیا کہ ایسے پاکستانی پورٹرز کے لیے کوئی نہ کوئی پلیٹ فارم ضرور بنانا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسے لوگ آپ کی تفریح کے لیے دشوار گزار مقامات پر آپ کی خدمت کرتے ہیں۔ دو، ڈھائی ہزار روپے یومیہ پر آپ کے لیے ناشتہ، کھانا بنانا، لکڑیاں جمع کرنا، سامان لادنا، ٹینٹ لگانا اور آپ کی سکیورٹی کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، مجھے ایسا لگا جیسے مجھ پر نذیر لالا کا قرض چڑھ گیا ہو۔ کراچی واپسی پر بس میں بیٹھا پورے راستے پورٹر پاکستان کے آن لائن پلیٹ فارم کے بارے میں سوچتا رہا۔‘

پاکستان پورٹر کا خیال اور انکیوبیشن سینٹر

اورنگزیب

اورنگزیب نے منصوبہ تو سفر کے دوران ہی بنا لیا تھا لیکن منزل پر پہنچنا کیسے ہے یہ انھیں کراچی میں قائم ایک انکیوبیٹرکی سربراہ جہاں آرا نے بتایا، جن کے پاس جانے کا مشورہ بھی انھیں سوشل میڈیا ہی کے ذریعے ملا۔

جہاں آرا بتاتی ہیں کہ ’اورنگزیب پہلی بار جنوری 2019 میں ہمارے اینکیوبیٹر نیسٹ آئی/او آئے جو پاکستان سافٹ ویئر ایسوسی ایشن (پاشا) کی زیر نگرانی چلایا جا رہا تھا۔ میں نے اُن کا پلان سُنا، وہ اپنے آئیڈیا کے حوالے سے پرجوش تھے لیکن اس کام میں اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے حوالے سے وہ خاصے ابہام کا شکار تھے۔‘

ماضی میں ہمیشہ سے نوکری پیشہ رہنے کے باعث اورنگزیب کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے متعلق کاروباری اصولوں سے واقفیت نہ تھی اور ان کا بزنس ماڈل بھی کچھ کچا پکا تھا۔

جہاں آرا کہتی ہیں کہ جب اس سے متعلق انھوںنے اورنگزیب کے ساتھ کچھ معلومات شیئر کیں تو انھوں نے اپنے پراجیکٹ ’پورٹر پاکستان‘ پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔

مجھے ایسا لگا جیسا ٹیلی کام سیکٹر میں میرا ٹیلنٹ محدود ہو کر رہ گیا تھا

Bike travel

آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اورنگزیب کو کیا پڑی تھی کہ وہ ٹیلی کام انجینئیرنگ چھوڑ کر اپنا سٹارٹ اپ شروع کرنے کا سوچیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں پاکستان میں رہ کر ٹیکنالوجی کے شعبے میں مزید کام نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ میرے خیال میں یہاں ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ سکوپ میٹینینس انجینئرنگ تک ہی ہے۔ پاکستان میں اس شعبے میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ اور ٹریننگز کا رجحان بہت محدود ہے، مجھے ایسا لگتا تھا جیسے ٹیلی کام میں میرا ٹیلنٹ محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ ہماری ٹیکنالوجی کمپنیوں میں غیر ملکی انجینیرز متواتر وزٹ کرتے ہیں لیکن جب وہ کسی کوڈ کی امپلیمنٹیشن کر رہے ہوتے تھے تو پاکستانی انجینئیرز کو اپنے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتے تھے۔‘

اپنے سٹارٹ اپ کا ڈیجیٹل پورٹل بنانے میں اُن کی مدد اُن کے بڑے بھائی نے کی جو جرمنی میں ڈیجیٹل میڈیا اور سافٹ وئیر کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں آن لائن فری لانسنگ بھی کر رہے تھے۔

اورنگزیب بتاتے ہیں کہ ’جب میرے بڑے بھائی نے میرا آئیڈیا سُنا اور فوراً ہی مجھے گرین سگنل دے دیا۔ طے یہ ہوا کہ ٹیکنالوجی سے متعلقہ امور وہ دیکھے گا اور بزنس سٹریٹجی میں نے دیکھنی ہے۔‘

اورنگزیب بتاتے ہیں کہ اس دوران انھوں نے گزر بسر کے لیے ایک پرائیوٹ کمپنی میں ملازمت ملی جس سے انھیں اپنے پراجیکٹ کا بزنس ماڈل بہتر کرنے میں بہت مدد ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ دو، دو کاموں کو ایک ساتھ لے کر چلنا مشکل ہو رہا تھا مگر وہ لگے رہے۔

’پورٹر پاکستان‘ میں وسعت

اورنگزیب کے مطابق اسی دوران ان کی ملاقات منیب پوری نامی ایک ٹیک کنسلٹنٹ سے ہوئی جنھوں نے انھیں ’پورٹر پاکستان‘ کے ویب پورٹل کو صرف پورٹرز کی سروسز تک محدود رکھنے کی مخالفت کی۔

اورنگزیب بتاتے ہیں کہ ’منیب کا خیال تھا کہ محض ٹریول گائیڈز اور پورٹرز کو آن بورڈ کرنے سے خاطر خواہ پیسے نہیں ملیں گا، اس کے لیے دیگر سروسز بھی شامل کرنا ہوں گی، لہذا ہم نے جولائی 2019 میں ’پورٹر پاکستان‘ کو آن لائن ٹریول ایجنسی میں تبدیل کر دیا۔ یوں ہم پورٹرز کے ساتھ ساتھ ہوٹلز، ٹرانسپورٹ اور ٹِکٹنگ کی سروسز بھی دینے لگے، ابتدا میں ہم نے چالیس ہزار روپے خرچ کر کے تقریباً دو سو کے قریب سروس پرووائیڈرز کو آن بورڈ کر لیا۔‘

تاہم اُن کے مطابق سخت محنت، اور طویل انتظار کے باوجود نتیجہ صفر تھا اور اگلے چار ماہ کے دوران انھیں ایک بھی لِیڈ نہیں ملی لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔

دوسری طرف جرمنی میں بیٹھے اورنگزیب کے بھائی وقار بھی پورٹل کو مسلسل اپ گریڈ کر رہے تھے۔

میں نے سولہ سولہ گھنٹے بائیک پر سفر کیا

Bike

مگر اورنگزیب کو یہاں ایک اور مشکل پیش آئی اور وہ یہ تھی کہ اُن کے ڈیجیٹل پورٹل ’پورٹر پاکستان‘ پر اچھے ہوٹل نہیں تھے اور جو تھے اُن کے کمروں اور سہولتوں کی تصاویر اور ویڈیوز اچھی کوالٹی کی نہیں تھیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اورنگزیب نے خود بالائی علاقوں کا سفر کر کے مختلف ہوٹلز اور ریسٹ ہاوسز کو آن بورڈ کرنے کی ٹھانی۔

اس کام کے لیے سفری اخراجات درکار تھے جو اُس وقت ان کے لیے برداشت کرنا مشکل تھا اس لیے اورنگزیب نے اس سفر کے لیے موٹر سائیکل اور کیمرہ اٹھایا اور نِکل پڑے۔

’میں نے 2016 میں زندگی کا پہلا موٹر بائیک سفر کراچی سے خنجراب تک کیا، جو بہت اچھا رہا۔ لیکن مجھ سے ایک غلط فیصلہ یہ ہوا کہ میں نے کراچی سے ہی موٹر سائیکل کا سفر کیا چونکہ موٹر وے پر موٹر سائیکل پر سفر کرنے کی اجازت نہیں لہذا جی ٹی روڈ کے ذریعے کراچی سے اسلام آباد پہنچنے نے ہی میرا حشر نشر کر دیا۔ شاید آپ یقین نہ کریں لیکن میں نے سفر کے دِنوں میں سولہ، سولہ گھنٹے بائیک چلائی۔‘

ایک ہوٹل مالک نے دھکے دے کر نکال دیا

Tourism

اس دوران اورنگزیب نے کُل 130 ہوٹلوں کا دورہ کر کے انھیں آن بورڈ کیا۔ اُن میں سے زیادہ تر ہوٹل مری، ناران، کاغان، بالاکوٹ، بابوسر اور ہنزہ کے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہنزہ کے لوگوں نے مجھے حیران کر دیا، وہ ہوٹلنگ کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے بارے میں بڑے شہروں کے لوگوںسے زیادہ سمجھ رکھتے ہیں۔ نہ صرف انھوں نے مجھے اپنے ہوٹلز کے کمروں کیتصاویر اتارنے کی اجازت دی بلکہ بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔‘

’دوسری طرف مری، ناران اور بالاکوٹ میں چیلنجز درپیش رہے۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ یہ تصویریں ایف بی آر کو تو نہیں دو گے؟ یا پھر یہ کہ ہمیں ضرورت نہیں آپ کے پورٹل کی، ہمارا ہوٹل ویسے بھی اچھا چل رہا ہے۔ مری میں تو ایک ہوٹل مالک نے یہ کہتے ہوئے دھکے دے کر نکال دیا کہ ہوٹل ہم چلائیں اور کمیشن تم لوگ کھاؤ۔‘

کووڈ کی وبا کی صورت میں رکاوٹ

اورنگزیب بتاتے ہیں کہ ابھی انھیں نئے ہوٹلز کی تفصیلات پورٹل پر ڈالے کچھ ہی ہفتے گزرے تھے کہ ملک میں کورونا کی وبا نے سیاحت سمیت دیگر معاشی سرگرمیوں کو روک لگا دی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’کووڈ کا دور ہمارے لیے بُرا بھی اور ایک طرح سے اچھا بھی رہاکیونکہ کووڈ پابندی کے دوران ایک سال تک ہم دونوں بھائیوں نے پورٹر پاکستان سے بریک لے کر دوبارہ آن لائن طریقے سے اپنی نوکریوں پر فوکس کیا، لیکن جب جولائی 2020 میں کووڈ ختم ہونے لگا اور سفری پابندیاں اٹھیں تو لوگوں نے بہت بڑی تعداد میں سیاحت کے لیے بالائی علاقوں کا رُخ کیا۔ اس دوران لوگوں میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز استعمال کرنے کا رجحان بھی بڑھا لہذا ہمیں اِسی سال اگست سے نومبر تک کافی کام ملا۔‘

اورنگزیب کو امید تھی کہ سال 2021 ان کے کاروبار کے لیے اچھا ثابت ہو گا لیکن اچانک اس انکیوبیٹر نے اپنے تمام آپریشن بند کرنے کا اعلان کر دیا اور یوں اورنگزیب سے ان کی آفس سپیس چِھنگئی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک ٹیک بزنس کو آفس کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی نہیں ہے، لیکن پاکستان میں کیونکہ ہم سروسز انڈسٹری سے وابستہ تھے تو لوگوں کو یہ ہوتا تھا کہ آپ کا دفتر کہاں ہے؟ پورٹر پاکستان پر کسی نے ٹرِپ بُک کرنا ہے تو اُس کو یہ ہوتا تھا کہ اگر یہ لوگ پیسے لے کر بھاگ گئے تو ہم کہاں ڈھونڈتے پھریں گے؟‘

پیسہ صرف کسٹمرز سے نہیں بلکہ گرانٹس سے بھی حاصل ہو سکتا ہے

تصویر

نیشنل انکیوبیشن سینٹر کراچی میں دفتر کی جگہ حاصل کرنے کے دوران اورنگزیب کو یہ بھی پتہ چلا کہ پیسہ صرف کسٹمرز کی جیب سے نہیں بلکہ گرانٹس اور سِیڈ منی کی شکل میں بھی آتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انکیوبیٹرز نہ صرف سرمایہ کاروں کے ساتھ کنکشن بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں بلکہ یہ بھی سکھاتے ہیں کہ انویسٹمنٹ حاصل کرنے کے لیے سرمایہ کار کا ذہن کیسے پڑھا جاتا ہے۔‘

اورنگزیب بتاتے ہیں کہ ’انکیوبیٹر میں ہم نے پورٹر پاکستان کا آئیڈیا مختلف پلیٹ فارمز پر پِچ کرنا شروع کر دیا، پہلی بار سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) نے پانچ لاکھ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی لیکن یہ رقم کیش کی صورت میں نہیں بلکہ ریسورسز جیسے کمپیوٹرز یا سافٹ وئیر لائسنسز وغیرہ کی صورت میں ملی۔‘

’یہ محدود قسم کی مدد تھی لیکن اس سے ہمیں اپنی ٹیم بنانے کا موقع ملا۔ اس دوران ایک کمپنی کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ ایک مقابلہ کروا رہے ہیں اور خوش قسمتی سے اس میں حصہ لے کر ہم نے تیسری پوزیشن حاصل کرتے ہوئے تین لاکھ کا انعام جیت لیا۔‘

’یہ دونوں گرانٹس حالانکہ مالی لحاظ سے بہت زیادہ مدد گار ثابت نہیں ہوئیں لیکن ان کی وجہ سے مجھے بہت تحریک ملی۔‘

ورلڈ بینک سے 35 ہزار ڈالر کی رقم کا حصول

ابھی تک ملنے والی رقوم محدود تھیں لیکن اورنگزیب کے لیے ورلڈ بینک کی جانب سے 35 ہزار ڈالر کی رقم ملنا گیم چینجر ثابت ہوا، جو پاکستانی روپوں میں اُس وقت تقریباً 76 لاکھ روپے بنتے تھے۔

وہ اس بارے میں بتاتے ہیں کہ ’ورلڈ بینک یہ گرانٹس ایچ ای سی کے ذریعے فراہم کر رہا تھا اور اس دوران ہر سطح پر سکروٹنی کے سخت ترین عمل سے گزرنا پڑا، مجھے یاد ہے کہ اس سِیڈ منی کے لیے فارم میں نے بڑی بے دلی سے بھرا، اور چند ہفتے گزر جانے کے بعد بات آئی گئی ہو گئی۔‘

ورلڈ بینک اور ایچ ای سی کے ماہرین نے شارٹ لِسٹنگ میں تقریبا گیارہ ماہ لیے، اس دوران میں بھول بھی چکا تھا کہ میں نے کوئی فارم بھرا تھا، لیکن پھر نومبر 2022 میں ایچ ای سی کی جانب سے اسلام آباد آنے کا خط ملا۔ میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا، یہ بہت بڑی کامیابی ہو سکتی تھی، اسلام آباد میں فائنل پِچ سے پہلے ماحول بہت زیادہ ٹینس تھا، ججز ہر زاویے سے بزنس کو پرکھ رہے تھے، کئی بار ان کے ساتھ ون ٹو ون سیشنز ہوئے اور ہر نکتے کا باریک بینی سی جائزہ لیا گیا۔ اگلے دن رزلٹ آیا تو پورٹر پاکستان کا نام بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل تھا جنھوں نے 35 ہزار ڈالر کی رقم جیتی تھی۔‘

اورنگزیب بتاتے ہیں کہ رقم ملنے کے بعد بھی ورلڈ بینک نے اس رقم کے عوض ہونے والے اخراجات پر بہت سختی سے نظر رکھی اور ہر سطح پر مکمل آڈٹ ہوتا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس رقم سے ہم نے پورٹر پاکستان کی قومی سطح پر آن لائن تشہیر کی اور اس کے ساتھ ساتھ ہم نے ہوٹلز کی بہتر تصاویر اور ویڈیوز کے لیے کیمرے اور ڈرون خریدا تاکہ صارفین کو اصل تصاویر پیش کی جا سکیں۔‘

اس دوران اورنگزیب کے سٹارٹ اپ کو ایک کامیابی اس وقت ملی جب سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بُک پر سیاحت میں دلچپسی رکھنے والے افراد کے ایک فیس بک گروپ کے ساتھ ہاتھ ملایا۔

وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے کم از کم پچاس سے ساٹھ مواقع پر پورٹر پاکستان کا آئیڈیا مختلف اداروں اور تنظیموں کو پچ کیا، اور ہر بار ججز کے ساتھ بات کرتے ہوئے وہ اپنے الفاظ اور انداز کو بہتر بناتے رہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کامیاب بزنس سٹارٹ اپ کے لیے کیا چند چیزیں سب سے زیادہ ضروری ہیں؟

اورنگزیب نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’سب سے ضروری چیز تو اپنے آئیڈیا کے ساتھ کمٹمنٹ ہے، ہمیں یقین تھا کہ آج نہیں تو کل ہم کر لیں گے۔‘

’دوسرا یہ کہ ہم نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جو روز بروز ترقی کر رہی ہے، پھر ہم اس معاملے میں بھی خوش قسمت رہے کہ کراچی کے دو سب سے بہترین انکیوبیٹرز میں ہماری تربیت ہوئی۔‘

’مینٹور نے ہمیں سمجھایا کہ سٹارٹ اپ شروع کیسے ہوتا ہے اور صلاحیتوں کو کیسے بہتر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح انکیوبیٹرز انویسٹرز سے سرمایہ حاصل کرنے کا طریقہ کار سکھاتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’انکیوبیٹر آپ کا بزنس ماڈل ہی اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ آپ آنے والے وقت کے لیے مالی طور پر تیار رہتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ انکیوبیٹرز میں جانا بہت ہی ضروری ہے لیکن ان کے پاس جانے میں ویلیو بہت زیادہ ہے۔‘

کامیاب بزنس ماڈل کے لئے انکیوبیٹرز میں کیوں جانا پڑتا ہے؟

اس سوال پر اورنگزیب کہتے ہیں کہ 'پاکستان کے سٹارٹ اپ ایکو سسٹم میں جو سب سے غیر معمولی سٹارٹ اپس ہیں اور جنھوں نے سب سے زیادہ فنڈ ریزنگ کی ہے، وہ ان نوجوانوں نے بنائے جو باہر سے پڑھ کے آئے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وہاں کی جامعات طلبا میں جو انٹریپنیورشپ کی تحریک ڈالتی ہیں اس پر پہلے دن سے محنت کی جاتی ہے کہ وہ نوکری کے بجائے کاروبار کرنے کا راستہ اپنائے۔ اسی وجہ سے مغرب میں انوویٹر اور انویسٹر کا بیلنس بہت متوازن ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یونیورسٹیز میں یہ رجحان نہیں ہے، خصوصاً سرکاری جامعات میں۔ آپ کو یہاں انوویٹر تیار کرنا ہے جو انویسٹر کی ضرورت اور اس کے مزاج کو سمجھ سکے، اس کام کے لیے انکیو بیٹرز کا کردار بہت اہم ہے۔‘

ایک سٹارٹ اپ انویسٹیبل کب بنتا ہے؟

اورنگزیب اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’بہت سے لوگ جو سمال اور میڈیم اینٹرپرائزز بلڈ کر رہے ہیں، وہ سٹارٹ اپ ہے، اور یہی بنیادی فرق ہے۔ ایک بیکری سٹارٹ اپ نہیں ہو سکتی۔ لیکن وہ بیکری اگر فرنچائزنگ شروع کر دے تو ایک سٹارٹ اپ بن سکتی ہے۔ ٹیک بزنسز سٹارٹ اپ کے لیے بہتر تصور کیے جاتے ہیں کیونکہ اس میں سکیلیبیلٹی فیکٹر موجود ہوتا ہے، بیکری کی دس فرنچائز میں ایک ہی سافٹ وئیر کام کر جائے گا لیکن بیکری کو بنانے کے لیے ہر دفعہ پوری لاگت آئے گی۔ اور یہاں قابلیت یا صلاحیت کامپرومائز ہو جائے گی۔ اس لیے ٹیک سٹارٹ اپ کو زیادہ انویسٹیبل تصور کیا جاتا ہے۔‘

پورٹر پاکستان کے اس سفر میں اورنگزیب نے تو ترقی کی ہی لیکن وہ ناران سے رتی گلی کے اپنے پہلے سفر اور ہم سفر کو کبھی نہیں بھولے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’نذیر لالا سے مسلسل رابطہ رہا، اس خطے میں ہمارے پلیٹ فارم سے جو بھی گیا اسے ہم نے ہمیشہ نذیر لالا اور ان جیسے تمام حقدار پورٹر سے رابطہ کروایا جو محنت کر کے اس کا صلہ پا سکتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ عرصہ پہلے میں نذیر لالا کے گھر گیا تو دیکھا کہ ان کے تمام بچے سکول جاتے ہیں، بڑے بیٹے نے میٹرک کے بعد اپنی جیپ خرید لی ہے جسے وہ سیاحوں کے لیے کیوائی اور شوگران میں چلاتا ہے۔ وہاں نذیر لالا کے ساتھ ایک روز کیمپنگ بھی، ہم پرانے وقتوں کو یاد کر کے ہنسے بھی خوب اور روئے بھی بہت۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.