کراچی میں کمسن صارم کے لرزہ خیز قتل کیس کی تحقیقات میں ابھی تک گھر والوں کو انصاف نہیں مل سکا۔ ڈی آئی جی ویسٹ عرفان بلوچ کے مطابق، زیرِ حراست تمام افراد کو شہر نہ چھوڑنے کی شرط پر رہا کر دیا گیا ہے، کیونکہ تفتیش اور شواہد پوسٹ مارٹم رپورٹ سے مطابقت نہیں رکھتے۔
حکام کا کہنا ہے کہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے فارنزک ماہرین کی مدد لی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے آئی جی سندھ نے محکمہ داخلہ کو باضابطہ خط لکھا ہے، جس کے بعد فارنزک ماہرین کا بورڈ شواہد کا دوبارہ جائزہ لے گا اور حتمی رپورٹ پیش کرے گا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ اور کیس کی پیچیدگی
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق، صارم کو مبینہ طور پر اغوا کے پانچ دن بعد قتل کیا گیا، اور اس کی لاش 7 جنوری کو نارتھ کراچی سے برآمد ہوئی تھی۔ ابتدائی تحقیقات میں کئی افراد کو حراست میں لیا گیا، جن میں مدرسے کا معلم، پلمبر، تین چوکیدار اور دو مقامی رہائشی شامل تھے۔
ڈی این اے رپورٹس اور تفتیش کی موجودہ صورتحال
قبل ازیں، صارم قتل کیس میں گرفتار کیے گئے تمام 18 مشتبہ افراد کی ڈی این اے رپورٹس منفی آئی تھیں، جس کے بعد کیس مزید پیچیدہ ہو گیا تھا۔ اب تحقیقاتی ادارے جدید سائنسی طریقوں سے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ کیس کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے جدید فارنزک تکنیکوں کا استعمال کیا جائے گا، تاکہ قاتل کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکے اور مقتول کے اہلِ خانہ کو انصاف مل سکے۔
عوام کا کہنا ہے کہ چونکہ صارم کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے تھا اس لئے اس کا لرزہ خیز قتل اور ظلم کی انتہا ہوجانے کے بعد بھی اداروں کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔ یہاں انصاف غریبوں کے لئے نہیں ہے بلکہ نتاشہ دانش جیسے لوگ جب چاہیں پیسے کے بل پر سینا تان کر جرم کرسکتے ہیں۔