سلمان تاثیر سے ڈاکٹر شاہنواز تک: کیا توہین مذہب کا معاملہ پاکستانی پولیس میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے؟

سندھ میں ڈاکٹر شاہنواز کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت اور اس کے بعد عدالت میں پیش کی گئی پریشان کُن تفصیلات نے اس سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا پاکستانی پولیس میں توہین مذہب کے معاملے پر مذہبی شدت پسندی موجود ہے اور حکومت اِس کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات کر رہی ہے؟

صوبہ سندھ کے ضلع عمر کوٹ کے قصبے جھانرو میں موجود ڈاکٹر شاہنواز کے والد اور ریٹائرڈ سکول ٹیچر صالح محمد اِس بات پر حیران ہیں کہ توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے اُن کے بیٹے کی ایک جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے ذمہ دار کسی ایک بھی پولیس افسر یا اہلکار کو چھ ماہ گزرنے کے باوجود گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔

یاد رہے کہ ستمبر 2024 میں ڈاکٹر شاہنواز کی پولیس تحویل میں قتل کا مقدمہ سندھ پولیس کے ایک ڈی آئی جی، دو ایس ایس پیز سمیت ایک درجن سے زائد پولیس اہلکاروں کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ یہ افسران اور اہلکار فی الحال معطل ہیں تاہم ان میں سے کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی ہے۔

صالح محمد کہتے ہیں کہ ’جب میرے بیٹے نے رضاکارانہ گرفتاری دے دی تھی تو میں مطمئن ہو گیا کہ وہ ایک ڈی آئی جی سطح کے افسر کی حراست میں ہے جو اس کے ساتھ کوئی ناانصافی یا غلط کام نہیں کرے گا۔‘

صالح محمد کے بیٹے اور عمر کوٹ سول ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر شاہنواز کے خلاف ستمبر 2024 میں مبینہ توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا جس کے بعد اُن کی گرفتاری کراچی سے ہوئی تاہم پولیس کی جانب سے 18 ستمبر کی رات ایک مقابلے کے دوران اُن کی ہلاکت کا دعویٰ کر دیا گیا۔

19 ستمبر کی صبح چند مذہبی گروہوں کے اراکین نے ڈی آئی جی آفس پہنچ کر اُن پولیس افسران کی پذیرائی کی تھی جو اس کام میں ملوث تھے اور انھیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے تھے۔میرپورخاص میں جب ڈاکٹر شاہنواز کی موت کا جشن منایا جا رہا تھا تو اُس مقام سے لگ بھگ سو کلومیٹر دور قصبہ جھانرو میں موجود ڈاکٹر شاہنواز کے اہلخانہ پولیس تحفظ کی عدم موجودگی میں اپنے بیٹے کی میت دفنانے کی کوشش کر رہے تھے۔

شاہنواز
BBC
ڈاکٹر شاہنواز کے والد صالح محمد: ’اگر ڈی آئی جی سطح کا افسر مجرم نکلے اور جھوٹ بولے تو کس پر اعتماد کریں؟‘

تدفین کے وقت جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا والد محمد صالح اس پر بات نہیں کرتے خاموش ہو جاتے ہیں اور ان کے آنکھوں میں پانی آ جاتا ہے۔ اُن کے چھوٹے بیٹے بابر علی ہمیں اس جگہ لے گئے جہاں تدفین کی کوشش کے دوران مشتعل افراد نے اُن کے بھائی کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔

بابر بتاتے ہیں کہ اُن کے بھائی کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد مشتعل ہجوم اُن کا پیچھا کرتا آ رہا تھا اور وہ جیسے ہی اپنی آبائی زمین پر بھائی کی تدفین کے لیے پہنچے تو ہجوم وہاں بھی پہنچ گیا۔ ’انھوں نے اپنی موٹر سائیکلیں کھڑی کیں اور دھمکیاں دیں کہ تمھیں بھی جلا دیں گے۔ ہم وہاں سے بھاگے اور ہمارے پیچھے انھوں نے ہمارے بھائی کی لاش کی بے حرمتی کی، اسے آگ لگا دی اور فرار ہو گئے۔‘

صالح محمد اور ان کے اہلخانہ اس بات پر حیران تھے کہ مشتعل افراد کیسے ان سے پہلے ہر اس جگہ پہنچ پا رہے تھے جہاں انھوں نے اپنے بیٹے کی تدفین کرنی تھی۔

صالح محمد کہتے ہیں کہ ’اگر ہمارے ملک اور صوبے میں ڈی آئی جی سطح کا افسر مجرم نکلے، جھوٹ بولے کہ بندہ مقابلے میں مارا گیا جبکہ پولیس نے گرفتاری تو ظاہر ہی نہیں کی تو اس کی کیا بات کریں، کیسے اعتماد کریں۔‘

’پولیس اور مذہبی جماعت میں رابطہ کاری‘

ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کیس میں نامزد ملزمان میں شامل افراد میں سے 11 ضمانت پر ہیں جبکہ ڈی آئی جی جاوید جسکانی اور ایس ایس پی چوہدری سمیت سات ملزمان عدالت کی جانب سے مفرور قرار دیے گئے ہیں۔

میرپور خاص میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی کی جانب سے پیش کیے گئے چالان میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت ملزم پولیس افسران مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک کے ایک مقامی رہنما پیر عمر جان سرہندی مسلسل رابطے میں تھے۔ عمر جان سرہندی اس کیس میں ملزم ہیں اور فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے چالان کے مطابق یہ افراد تفتیشی ٹیم پر اثر انداز ہونے کے لیے سیاسی شخصیات سے بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

چالان کے مطابق وقوعہ کے وقت ایس ایس پی اسد چوہدری سی آئی اے سینٹر پر موجود تھے اور وہ ایک مشکوک فون نمبر کے ساتھ بھی رابطے میں تھے۔ اس کے علاوہ وہ سی آئی اے ٹیم کے اہلکار محمد اقبال سے بھی رابطے میں تھے جس کے فون کی 'لوکیشن' مقامی مذہبی رہنما کے ساتھ ظاہر ہو رہی تھی۔

ایف آئی اے کے عدالت میں جمع کروائے گئے حتمی چالان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ڈاکٹر کنبھار کو گرفتار کرنے والی ٹیم میں شامل پولیس کانسٹیبل معشوق بھی مذہبی جماعت کی ٹیم کے رکن عمر جان کے ساتھ رابطے میں تھے۔

ایف آئی اے نے عمر جان کی موبائل کا فرانزک کیا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ 18 نومبر کو انھوں نے ایس ایس عمرکوٹ آصف رضا سے رابطہ کیا تھا۔پیر عمر جان نے ایف آئی اے کو اپنی دو ویڈیوز پیش کی ہیں جس میں ڈاکٹر شاہنواز کے بارے میں انھوں نے جو مؤقف اختیار کیا تھا اس کی تفصیلات موجود تھیں۔

ایف آئی اے کے چالان میں بتایا گیا ہے کہ ڈی آئی جی جاوید سونھارو جسکانی وقوعہ کے وقت اپنے دفتر میں موجود تھے اور ان کا صرف ایس ایس پی اسد چوہدری سے رابطہ تھا جبکہ ایس ایس پی آصف رضا اور عمر جان سے موبائل فون کے ذریعے رابطے کے ثبوت نہیں ملے تاہم پی ٹی سی ایل نمبر کا ذکر نہیں کیا گیا۔

Police
Getty Images
عدالت میں ایف آئی اے کی جانب سے پیش کیے گئے حتمی چالان کے مطابق پولیس اہلکاروں کے مذہبی جماعت کے رہنماؤں سے رابطے تھے (فائل فوٹو)

’سب منصوبہ بندی کے تحت ہوا‘

ایف آئی اے کے حتمی چالان میں تحریک لبیک کے رہنما پیر عمر جان سرہندی، ڈی آئی جی جاوید جسکانی، ایس ایس پی آصف رضا، ایس ایس پی اسد علی چوہدری، عنایت علی زرداری، ہدایت اللہ، ندار پرویز، غلام قادر، نیاز محمد کھوسو اور دانش بھٹی سمیت 23 ملزمان کے خلاف ٹرائل کی اپیل کی گئی ہے۔

شاہنواز کنبھار قتل کیس کی پیروی کرنے والے پینل میں شامل ایڈووکیٹ سجاد چانڈیو کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شاہنواز کی گرفتاری سے لے کر اُن کی لاش کو جلانے تک سب منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے۔

سجاد چانڈیو نے کہا کہ عدالت میں جمع کروائی گئی ایف آئی اے کی رپورٹ سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ مولوی اور پولیس افسران رابطے تھے۔ ’عمرکوٹ پولیس نے شاہنواز کو کراچی سے گرفتار کیا اور اُن کی گرفتاری سے مقامی پولیس کو لاعلم رکھا گیا۔ اس کے بعد ڈی آئی جی کے کہنے پر ان کی حراست میرپورخاص پولیس کے حوالے کی گئی اور اس وقت بھی مذہبی عناصر پولیس سے رابطے میں تھے۔‘

اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ ’شاہنواز کو قتل کرنے کے بعد جب اُن کی لاش لواحقین کے حوالے کی گئی تو صبح تقریباً چھ بجے بھی ملزمان میں رابطہ کاری ہو رہی تھی۔ شاہنواز کی میت جلانے کی وجہ جسم پر موجود تشدد کے نشانات کو چھپانا تھا۔ یہ سب ایک پورا منصوبہ تھا جو ایف آئی اے کی عدالت میں جمع کروائی گئی تحقیقات میں ثابت ہوا ہے۔‘

’سوچا نہ تھا کہ سرکاری محافظ یہ کرے گا؟‘

تصویر
BBC
’کسی کے ساتھ ظلم ہو اور بغیر قانونی کارروائی کیے ہوئے کسی شخص کا محض الزام کی بنیاد پر قتل ہو جائے تو اس دکھ کو میرے خاندان کے علاوہ اور کون زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہے‘

شاہنواز کا کیس ہی واحد نہیں ہے جس میں پولیس ملزم بن کر سامنے آئی ہے۔ اس سے قبل پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی اس نوعیت کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

شاہنواز کے قتل سے صرف آٹھ روز قبل 11 ستمبر 2024 کو کوئٹہ میں ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عبدالعلی نامی شہری کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور بعدازاں وہ تھانے کے اندر ایک پولیس اہلکار کی فائرنگ سے ہلاک کر دیے گئے۔

عبدالعلی کے لواحقین کو بھی تدفین میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بعدازاں ہونے والے ایک مقامی جرگے نے قتل کے ملزم اہلکار کو معاف کر دیا اور اس کو رہا کر دیا گیا جبکہ رہائی کے موقع پر ان کو پھولوں کے ہار پہنا کر استقبال کیا گیا۔ یاد رہے کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ریاست کی جانب سے اس معاملے کی پیروی کی جائے گی تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔

پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے واقعات نئے نہیں ہیں۔ سنہ 2011 میں پنجاب کے اُس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو اُن کے اپنے ہی سرکاری محافظ نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ پولیس کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ممتاز قادری نامی یہ اہلکار ایک مذہبی گروہ سے متاثر تھے۔

سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اُن دنوں صورتحال کافی سنگین تھی۔ ’میں نے ایک شخص کو دیکھا جو ٹی وی پر گالیاں دے رہا تھا اور میرے والد کے قتل کی باتیں کر رہا تھا۔ اس سے قبل میں نے ٹی وی پر کبھی ایسی چیز نہیں دیکھی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مجھے اس معاملے کا پتہ تھا جس میں آسیہ بی بی پھنسی ہوئی تھیں۔ ہم نے پوری رپورٹس دیکھی ہوئی تھیں کہ اُن کو کیسے پھنسایا گیا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیسے بات کر رہے ہیں قتل کی۔ میں نے اپنا والد کو کہا تھا کہ ابا ہماری عوام میں بہت غربت ہے بہت ان پڑھ ہیں، میرا خیال ہے اُن کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ آپ کیا بات کر رہے ہیں۔ اس پر وہ بڑے غصے میں آئے تھے اور انھوں نے مجھے کہا تھا کہ میں نے اللہ کو جواب دینا ہے تم لوگوں کو نہیں۔‘

شہباز تاثیر کے مطابق ’یقیناً آپ کو ڈر لگتا ہے مگر پھر آپ سوچتے ہیں کہ میرے والد صاحب گورنر ہیں اور ان کی کافی سکیورٹی ہے۔ لیکن یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کا اپنا گارڈ اس طرح کی حرکت کر سکتا ہے، وہ بھی ایک آفیشل گارڈ۔ ہمارے لیے تو یہ بہت صدمے کی بات تھی۔‘

عمرکوٹ اور کوئٹہ میں حالیہ پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’کسی کے ساتھ ظلم ہو اور بغیر قانونی کارروائی کیے ہوئے کسی شخص کا محض الزام کی بنیاد پر قتل ہو جائے تو اس دکھ کو میرے خاندان کے علاوہ اور کون زیادہ بہتر سمجھ سکتا ہے۔‘

’کمانڈ کی سپورٹ کے بغیر یہ اقدام ممکن نہیں‘

سلمان تاثیر سے لے کر ڈاکٹر شاہنواز کے قتل تک میں مشترکہ بات یہ رہی کہ قتل کرنے والوں میں پولیس اہلکار شامل تھے۔ ہم نے یہ ہی جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا پولیس کی صفوں میں مذہبی انتہا پسندی کا رجحان فروغ پا رہا ہے اور کیا اس کے سدباب کے لیے کوئی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں یا نہیں؟

چرچ ہوں، امام بارگاہیں ہوں، مساجد یا مندر، پولیس اہلکار لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ اہلکار ہی شدت پسند رویہ اختیار کر لیں تو اس کا معاشرے پر کیا اثر ہو گا؟

برطانیہ کی واروک یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر زوہا وسیم کہتی ہیں کہ ’حالیہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ نچلے رینک اور اعلیٰ افسران کسی نہ کسی طرح مذہبی انتہا پسندی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں: خاص طور پر جب توہین مذہب کی بات آتی ہے تو وہ اس معاملے پر ہمدری رکھتے ہیں۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ جو اہلکار توہین مذہب کے ملزمان کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہو رہے ہیں وہ یہ اقدام اپنے افسران کی لاعلمی میں نہیں لے سکتے۔ ’وہ ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے اگر انھیں پتا نہ ہو کہ انھیں اوپر کی سطح پر یعنی پولیس کمانڈ سے سپورٹ ملے گی۔‘

زوہا وسیم کے مطابق ’پولیس ایک سیکولر ادارہ تو نہیں ہے۔ پولیس وہی مذہبی نظریات اپناتی ہے جو معاشرے میں عام ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ ملتا ہے تو پولیس میں بھی عدم برداشت والے لوگ ملیں گے۔ ماضی کے واقعات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ پولیس افسران میں سے کچھ کی طالبان کے ساتھ، کچھ کی فرقہ وارانہ شدت پسند تنظیموں کے ساتھ اور کچھ کی تحریک لبیک جیسی جماعتوں کے ساتھ بھی ہمدریاں موجود ہیں۔‘

’مذہبی جماعتوں کا پولیس پر دباؤ رہتا ہے‘

پولیس
BBC
’کچھ اکا دکا کیسز یقیناً موجود ہوتے ہیں لیکن مجموعی طور پر سندھ پولیس بڑی روشن خیال ہے‘

پاکستان کے کئی علاقوں میں پولیس بھی شدت پسند تنظیموں کا نشانہ بن چکی ہے۔ پولیس حکام کا ماننا ہے کہ بطور فورس پولیس میں مذہبی شدت پسندی کا رجحان موجود نہیں ہے بلکہ یہ انفرادی واقعات تھے۔

ڈی آئی جی عرفان علی بلوچ کہتے ہیں کہ سندھ پولیس کسی بھی طرح مذہبی شدت پسندی کا شکار نہیں ہے اور اس کے لیے سینیئر افسران نے بڑی محنت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’نچلے رینک کے اہلکار چونکہ معاشرے کے ساتھ زیادہ رابطے میں ہوتے ہیں تو اس بات کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے کہ اُن کی رائے متاثر ہو جائے۔ تاہم کسی بھی سطح پر یہ نہیں دیکھا گیا کہ اہلکاروں میں مذہبی شدت پسندی موجود ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے کافی کیسز ایسے دیکھے ہیں جن میں بعض لوگ قرآن مجید کی بےحرمتی کرتے ہیں اور اُن میں سے زیادہ تر ذہنی طور پر صحتمند نہیں ہوتے ہیں۔ جب پولیس افسران ایسے افراد کو ہینڈل کر رہے ہوتے ہیں تو وہ ان ملزمان کو بچا رہے ہوتے ہیں جن کی جان کے درپے مشتعل ہجوم ہوتا ہے۔‘

اُن کی رائے میں ’کچھ اکا دکا کیسز یقیناً موجود ہوتے ہیں کیونکہ پولیس افسران کے بھی کوئی نظریات اور عقیدے ہوتے ہیں لیکن مجموعی طور پر سندھ پولیس بڑی روشن خیال ہے اور اس میں کسی قسم کی شدت پسندی نہیں ہے۔‘

عرفان علی بلوچ تسلیم کرتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کا پولیس پر دباؤ رہتا ہے تاہم ان کے مطابق اس کا پیشہ ورانہ انداز میں سامنا کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ’توہین مذہب کے کیسز میں پولیس پر بہت دباؤ ہوتا ہے، مذہبی گروہوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی بات مانی جائے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ پولیس افسران نے اس نوعیت کے کیسز کو ہینڈل کرنا سیکھ لیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جو بھی توہین مذہب کا کیس ہوتا ہے اس کو ایس پی یا ایس پی ایس پی سطح کے افسر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔‘

’مؤثر حکمت عملی موجود نہیں‘

تصویر
BBC
ڈاکٹر شاہنواز کی قبر پر موجود ان کا بھائی

ڈاکٹر شاہنواز قتل کیس کی تحقیقات میں ایف آئی اے، پولیس اور سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹس میں پولیس افسران کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ اس واقعے کو ماورائے عدالت کے پیرائے میں تو دیکھا گیا ہے لیکن اس سوال کو مد نظر نہیں رکھا گیا کہ پولیس میں ایسے شدت پسند رویوں کی وجوہات کیا ہے اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے۔

ڈاکٹر شاہنواز اور عبدالعلی کے قتل کے علاوہ توہین مذہب کے مقدمات کا سامنے کرنے والے تین افراد کی پنجاب کی جیلوں کے اندر ہلاکت ہو چکی ہے۔ ادارہ برائے سماجی انصاف کے مطابق ان اموات کو حادثاتی یا فطری قرار دیا گیا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جبکہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کہنا ہے کہ اُن کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے میں بعض واقعات مشتعل ہجوم کو پولیس کی معاونت حاصل رہتی ہے۔

پاکستان انسٹیٹوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کہتے ہیں کہ پولیس کے مذہبی شدت پسندی کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہ ایک سنگین معاملہ بن چکا ہے اور اس کا تدارک نظر نہیں آتا۔

انھوں نے کہا کہ ’پولیس میں ڈی ریڈکلائزیشن یعنی شدت پسندی کی روک تھام کی غرض سے کچھ علما کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، مگر اُن کا پس منظر بھی مشکوک ہوتا ہے لہٰذا پولیس کے پاس اس شدت پسندی سے متعلق کوئی مؤثر حکمت عملی موجود نہیں ہے۔‘

ڈی آئی جی عرفان بلوچ کہتے ہیں کہ جب پولیس کے پارٹ پر ایسے واقعات ہو رہے ہوتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہو کہ قانون کے محافظ ہی قانون توڑ رہے ہیں تو یہ بات معاشرے کے لیے خطرناک بن جاتی ہے۔ ’اس کے لیے پولیس کی سینیئر قیادت بڑا غور و فکر کرتی ہے اور ایسے واقعات سے بچنے کے لیے اقدامات بھی لیے جا رہے ہوتے ہیں۔ جو افراد اس ایشو پر کام کرتے ہیں ان سے بھی رابطہ کر رہے ہیں۔‘

وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے مذہبی شدت پسندی نہ صرف اس ادارے میں ہے بلکہ اور جگہوں پر بھی ہے۔‘ بقول اُن کے خاص طور پر جو حساس مقامات ہیں وہاں تعینات ہونے والے پولیس اہلکاروں کا نفسیاتی تجزیہ ہونا چاہیے تاکہ وہ ایسا کوئی غیر قانونی قدم نہ اٹھائیں۔

زوہا وسیم کہتی ہیں کہ پاکستان میں پولیس ایک ریاستی ادارے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی ادارہ بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’پولیس کو ریاست کی پالیسی کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے اور اگر ریاست کی پالیسی یہی ہو کہ انتہا پسند جماعتوں کی حمایت کرنی ہے اور انھیں پھلنے پھولنے دینا ہے اور ان سے اپنے سیاسی مقاصد پورے کروانے ہیں تو آپ پولیس سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ الگ ہی کام کرے گی۔‘

زوہا وسیم کے مطابق ’پولیس بھی ان پالیسوں کے اندر کام کرے گی جب تک ریاست اور معاشرے میں انتہا پسندی کا علاج نہیں کیا جائے گا تو پولیس میں بھی آپ فرق نہیں کر پائیں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.