برتن دھونے والے سپونج پر ’انسانی فضلے کے برابر جراثیم‘: اسے صاف کیسے رکھا جائے اور کتنے عرصے بعد بدلا جائے؟

سپونج ہر گھر کے کچن میں استعمال ہونے والی ایک عام چیز ہے۔ ہم ان کا استعمال گندے برتنوں کی صفائی کرنے کے لیے کرتے ہیں، لیکن آپ کے کچن کا سپونج ایک گیلا، کچرے سے بھرا ہوا ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جو بیکٹیریا کے پنپنے کے لیے بہترین ہے۔ اس میں کتنے خطرناک جراثیم ہوتے ہیں اور کیا آپ کو اس کے بجائے واشنگ برش کا انتخاب کرنا چاہیے؟
سپونج
Getty Images
سپونج ہر گھر کے کچن میں استعمال ہونے والی ایک عام چیز ہے۔ ہم ان کا استعمال گندے برتنوں کی صفائی کرنے کے لیے کرتے ہیں

سپونج ہر گھر کے کچن میں استعمال ہونے والی ایک عام سی چیز ہے جس کا استعمال ہم گندے برتنوں کو دھونے کے لیے کرتے ہیں۔ لیکن آپ کے کچن کا گیلا سپونج ایک ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جو بیکٹیریا کے پنپنے کے لیے بہترین ہے۔

مگر اس سپونج میں کتنے خطرناک جراثیم ہوتے ہیں اور آپ کو اس کے متبادل یعنی واشنگ برش کا استعمال کیوں کرنا چاہیے؟

بیکٹیریا یا جراثیم کی ہر قسم اپنے پنپنے کے ماحول سے بخوبی واقف ہوتی ہے۔ کچھ زمین کی تہہ کے اندر، کچھ اُبلتے ہوئے ہائیڈرو تھرمل وینٹس میں تو کچھ برف سے اٹے سرد ترین علاقوں میں بھی اپنا گھر بنانا بخوبی جانتے ہیں۔

اور اگر بیکٹیریا سے پوچھا جائے کہ وہ کہاں رہنا سب سے زیادہ پسند کریں گے؟ تو یقیناً اُن کا جواب ہو گا کہ آپ کے باورچی خانے میں موجود سپونج میں!

یعنی اس چیز میں جس سے ہم اپنے پانی کے گلاس، چمچے، پلیٹیں اور دیگچیاں وغیرہ دھوتے ہیں۔ سپونج بیکٹریا یا جراثیم کے لیے ایک جنت کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سپونج گرم مرطوب، گیلے اور خوراک کے ذرات سے بھرے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ جراثیم یا بیکٹریا کی نشوو نما کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔

سنہ 2017 میں جرمنی کی فرٹ وانگن یونیورسٹی کے ایک مائیکرو بائیولوجسٹ مارکس ایگرٹ نے کچن کے استعمال شدہ سپنجوں میں بیکٹریا یا جراثیم سے متعلق اعداد و شمار شائع کیے تھے۔ انھوں نے ان سپنجز میں جراثیم کی 362 مختلف اقسام دریافت کی تھیں۔ اور ایک سپونج کی کچھ جگہوں پر بیکٹیریا کی کثافت 54 ارب جرثومے فی مربع سینٹی میٹر تک پائی گئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ یہ اتنی ہی زیادہ ہے جتنی آپ کو انسانی فضلے یعنی پاخانے میں ملتی ہے۔‘

سپونج میں متعدد چھوٹے چھوٹے سوراخ اور گڑھے ہوتے ہیں جن میں ان جراثیم یا بیکٹریا کو پنپنے کو بہترین موقع ملتا ہے۔

ڈیوک یونیورسٹی کے مصنوعی حیاتیات کے ماہر لنگچونگ یو اور اُن کی ٹیم نے سنہ 2022 میں ایک تحقیقی مطالعے کے لیے سپونج کے پیچیدہ ماحول کو ماڈل بنانے کے لیے کمپیوٹر کا استعمال کیا۔

انھوں نے اس تحقیق میں پایا کہ مختلف سائز کے سوراخ والے سپونج سب سے زیادہ جراثیم کی نشو و نما کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی ٹیم نے ان سپونج میں ای کولی کی نشو و نما کر کے ان نتائج کی جانچ کی۔

ایگرٹ کا کہنا ہے کہ ’انھیں پتہ چلا کہ باورچی خانے کے سپونج میں مختلف سائز کے سوراخ ہونا ایک ایسی چیز ہے جو واقعی بیکٹیریا کی افزائش کے لیے اہم ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ آپ کے پاس ایسے بیکٹیریا ہوتے ہیں جو خود بڑھنا پسند کرتے ہیں، اور آپ کے پاس ایسے بیکٹیریا ہوتے ہیں جنھیں دوسروں کی صحبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک سپونج کے اندر آپ کے پاس اتنے مختلف ڈھانچے یا سوراخ ہوتے ہیں کہ ہر طرح کے بیکٹریا کو نشو و نما کا موقع ملتا ہے۔‘

سپونج یقینی طور پر بیکٹیریا کے لیے اچھے گھر ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم، یہ ضروری نہیں کہ یہ ہماری صحت کے لیے بھی خطرہ ہوں۔ بیکٹیریا ہر جگہ موجود ہیں۔ ہماری جلد پر، مٹی میں اور ہمارے ارد گرد ہوا میں، مگر یہ سبھی نقصان دہ نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ بہت سے اہم کام بھی انجام دیتے ہیں۔

اس لیے اہم سوال یہ ہے کہ کیا سپونج میں پائے جانے والے بیکٹیریا کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت ہے؟

تصویر
Getty Images
ماہرین کے مطابق سپونج کے بجائے واشنگ برش کا استعمال زیادہ محفوظ ہوتا ہے

ایگرٹ کے سنہ 2017 کے مطالعے میں، انھوں نے عام بیکٹریا یا جراثیم کی اقسام کا ڈی این اے تجزیہ کیا۔ اگرچہ ہر جرثومے کی صحیح انواع کی شناخت کرنا ممکن نہیں تھا لیکن دس میں سے پانچ بیکٹیریاکا تعلق اُن جراثیم سے تھا جو انسانی صحت یا ان کے مدافعتی نظام کو متاثر کر سکتے تھے۔

ایسے میں سپونج کی صفائی کے لیے اسے مائیکرو ویو میں گرم کرنا یا گرم پانی سے یا صابن سے دھونافائدہ مند نہیں تھا۔ یہ طریقہ کار اپنانے سے اگرچہ سپونج میں کچھ بیکٹیریا تو ختمہوئے لیکن اس سےزیادہ مزاحمت کرنے والے چند بیکٹریا کی نشو و نما کو مزید بڑھا دیا۔

ایگرٹ کا کہنا ہے کہ ’ہمارا مفروضہ یہ ہے کہ صفائی ستھرائی کے اقدامات ایک قسم کے انتخاب کے عمل کا باعث بن سکتے ہیں، جہاں بچ جانے والے چند جراثیم دوبارہ بڑی تعداد میں بڑھ سکتے ہیں۔‘

ایگرٹ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ یہ عمل ایک، دو بار کرتے ہیں، تو اس سے ان بیکٹیریا کا انتخاب ہو سکتا ہے جو صفائی میں بہتر طریقے سے خود کو ڈھال لیتے ہیں۔‘

تاہم یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ایگرٹ کے تجزیے یا تحقیق میں کوئی بھی ایسے بیکٹریا یا جراثیم نہیں ملے جو فوڈ پوائزنگ یا انسانی صحت خراب کرنے والے ہوں۔

درحقیقت فوڈ پوائزنگ کے سبب ہسپتال داخل ہونے والے مریضوں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان میں سے 90 فیصد مریضوں میں صرف پانچ قسم کے جراثیم ہوتے ہیں۔ جن میں سے تین بیکٹیریا ایسچریچیا کولی، سالمونیلا اور کیمپائلوبیکٹر نامی ہیں۔

شکر ہے یہ سپونج میں بہت ہی کم ہوتے یا بالکل نہیں ہوتے ہیں۔

ایگرٹ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں سپونج میں صرف ممکنہ طور پر ایسے بیکٹیریا ملے ہیں جو کمزور مدافعتی نظام والے لوگوں، یا بوڑھوں یا بچوں کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘ ایگرٹ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر ایک صحت مند شخص کے لیے، باورچی خانے کے سپونج کے اندر موجود بیکٹیریا نقصان دہ نہیں ہوتے ہیں۔‘

سنہ 2017 میں امریکہ کی پریری ویو اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں فوڈ سیفٹی کی پروفیسر جینیفر کوئنلان اور ان کے ساتھیوں نے فلاڈیلفیا کے 100 گھروں سے کچن کے سپونج اکٹھے کیے تھے۔

انھوں نے ان کے تجزیے میں پایا کہ ان سپنجوں میں سے صرف ایک یا دو فیصد میں انسانوں میں فوڈ پوائزننگ سے منسلک بیکٹیریا موجود ہیں۔

اس تحقیق کی حمایت 2022 کی ایک تحقیق میں بھی کی گئی جس میں ناروے کے فوڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ ’نوفیما‘ کے سائنسدان سولویگ لینگس رڈ نے برتن دھونے کے سپونج اور برش میں پائے جانے والے بیکٹیریا کا موازنہ کیا۔

انھیں دونوں میں بے ضرر بیکٹیریا کا ایک مشترکہ مجموعہ ملا۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ سپونج کے مقابلے میں برش میں مجموعی طور پر بہت کم بیکٹیریا ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ بیکٹریا آپ کے سپونج سے آپ کی پلیٹ، گلاس یا برتنوں پر بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔

کوئنلان کا کہنا ہے کہ ’سپونج پر موجود بیکٹیریا کی اکثریت بیماری کا باعث نہیں بنتی، وہ صرف اس میں بدبو پیدا کرنے کا کام کرتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ اگر آپ کچے گوشت یا کچے چکن کے پانی یا خون کو صاف کرنے کے لیے سپونج کا استعمال کرتے ہیں تو اس میں کچھ مہلک بیکٹریا یا جراثیم موجود ہو سکتے ہیں، اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پیتھوجینز یا مہلک جراثیم کچن کے سپونج سے الگ ہو کر کچن کی دیگر سطحوں پر لگ سکتے ہیں۔‘

لہذا آپ کے سپونج میں بڑھنے والے بیکٹیریا عام طور پر نقصان دہ نہیں ہوتے ہیں، اگر خطرناک بیکٹیریا جیسے سالمونیلا اس پر آ جاتے ہیں، تو سپونج کی ساخت اسے اس پیتھوجین کے بڑھنے کے لیے ایک بہترین جگہ بناتی ہے۔

اس بات کے ثبوت موجود ہیں۔ لینگس رڈ کی تحقیق میں جب محققین نے سلمونیلا کو کچن کے سپونج میں متعارف کرایا تو وہ پروان چڑھے، لیکن جب انھوں نے اس بیکٹیریا کو برش پر ڈالا تو وہ مر گئے۔

اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ برش اکثر استعمال کے بعد زیادہ بہتر طریقے سے خشک ہو جاتے ہیں، جس سے سالمونیلا بیکٹیریا ہلاک ہو جاتے ہیں، جب کہ سپونج اندر سے گیلا رہ سکتا ہے۔

ممکنہ طور پر یہ بیکٹیریا آپ کے سپونج سے پلیٹوں اور برتنوں یا سطحوں پر بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔

تو ہمیں اپنے باورچی خانے کے سپونج کو کتنی بار تبدیل کرنا چاہیے؟

کوئلان کا استدلال ہے کہ حفظان صحت کے نقطہ نظر سے، مثالی طور پر آپ کو اسے ہفتہ وار بنیاد پر تبدیل کرنا چاہیے، لیکن اس دورانیے کو بڑھانے کے لیے آپ اس کی صفائی کے کچھ طریقے بھی اپنا سکتے ہیں۔

سپونج
Getty Images
سپونج میں متعدد چھوٹے چھوٹے سوراخ اور گڑھے ہوتے ہیں جن میں ان جراثیم یا بیکٹریا کو پنپنے کو بہترین موقع ملتا ہے

سپونج کو صرف دو طریقوں سے صاف کیا جا سکتا ہے۔ آپ شام کے بعد ان کو ڈش واٹر میں رکھ سکتے ہیں یا پھر آپ ایک منٹ کے لیے انھیں مائیکروویو میں رکھ سکتے ہیں جب تک کہ اس میں سے آپ کو سٹیم نکلتی نظر نہ آئے۔

تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ سادہ طریقے سے بلیچ سے برتن دھونے کے بجائے اس طریقے سے ڈش واٹر اور مائیکرو ویو میں برتنوں کی صفائی سے بیکٹیریا کی بڑی حد دھلائی ہو جاتی ہے۔

مگر ایگرٹ کے مطالعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ وقت کے ساتھ برتنوں کی دھلائی کم مؤثر رہ جاتی ہے کیونکہ اس سے ان پر زیادہ مزاحمت کرنے والے دھبے پڑ جاتے ہیں۔ سپونچ کو ابلتے ہوئے پانی میں ڈال کر اس سے صفائی کی جائے تو پھر اس سے زیادہ جراثیم مر جاتے ہیں۔ اگرچہ اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ کچھ جراثیم بچ جائیں خاص طور پر وہ جو حفاظتی تہہ بنا لیتے ہیں۔

اس طریقے سے برتن دھونے سے سلمونیلا نامی جراثیم کی مؤثر صفائی ہو سکتی ہے۔

اور گُر یہ ہے کہ سپونچ کو ’سنک‘ میں نہ رکھا جائے تاکہ یہ استعمال کے لیے پھر سے خشک ہو سکے اور ٹھیکسے کھانوں کے بچے ہوئے ذرات کی صفائی کر سکے۔

کچھ لوگ صفائی کے لیے اس سے بھی بالکل مختلف طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ایگرٹ کا کہنا کہ ’میں کچن والے سپونچ سے کبھی صفائی نہیں پسند کروں گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مجھے اس کی کوئی تُک سمجھ نہیں آتی کہ اس طرح کی کسی چیز کو کچن جیسی جگہ پر استعمال کیا جائے۔‘

اُن کی تجویز کے مطابق اس مقصد کے لیے ایک برش بہت کارآمد ہے کیونکہ اس پر کم بیکٹیریا ہوتے ہیں اور یہ آسانی سے خشک بھی ہو جاتا ہے اور اس سے برتنوں کی صفائی بھی آسان ہوتی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.