2026 میں سدھو موسے والا کے لائیو کنسرٹ کا اعلان: گلوکار کی موت کے بعد یہ کیسے ممکن ہوگا؟

سدھو موسے والا کے مداح اس خبر کو لے کر پرجوش بھی ہیں اور حیران بھی کہ جو شخص اس دنیا میں موجود ہی نہیں، اس کا ورلڈ ٹور آخر کیسے ممکن ہے؟
سدھو موسے والا کی موت کے بعد بھی ان کے بہت سے گيت ریلیز ہوئے
Getty Images
سدھو موسے والا کی موت کے بعد بھی ان کے بہت سے گيت ریلیز ہوئے

سدھو موسے والا کی ٹیم کی جانب سے 14 جولائی کو ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں ’سائنڈ ٹو گاڈ، ورلڈ ٹور-2026‘ لکھا تھا۔

یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہے کہ تین سال قبل قتل ہوجانے والے سدھو موسے والا کا ورلڈ ٹور 2026 میں ہوگا۔

تاہم ابھی تک کوئی باضابطہ مقام یا شیڈول شیئر نہیں کیا گیا ہے۔ مختلف میڈیا ہاؤسز سے بات چیت میں سدھو موسے والا کی ٹیم نے بتایا کہ فی الحال تیاریاں زوروں پر ہیں اور اس ٹور کے بارے میں تمام معلومات صرف سدھو موسے والا کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ہی مداحوں سے شیئر کی جائیں گی۔

ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ آخر یہ ٹور کیسے ممکن ہوگا؟

لیکن 29 مئی سنہ 2022 کو سدھو موسے والا کے قتل کے بعد سے اب تک ان کے 11 گانے ریلیز ہو چکے ہیں۔

سدھو موسے والا کے مداح اس خبر کو لے کر پرجوش بھی ہیں اور حیران بھی کہ جو شخص اس دنیا میں موجود ہی نہیں، اس کا ورلڈ ٹور آخر کیسے ممکن ہے؟

موسے والا کی ٹیم کی جانب سے شیئر کی گئی ویب سائٹ ’سائنڈ ٹو گاڈ‘ کے مطابق یہ ایک ’ہولوگرام شو‘ ہوگا۔

ویب سائٹ پر شیئر کی گئی معلومات میں لکھا گیا ہے کہ ’یہ ان کا پہلا ہولوگرام ٹور ہوگا، جو موسے والا کو خراجِ عقیدت ہوگا، جس میں ٹیکنالوجی اور جذبات کا امتزاج نظر آئے گا۔ دنیا بھر میں موجود ان کے مداح ایک بار پھر ان کی توانائی، آواز اور موجودگی کو صرف ایک یاد کے طور پر نہیں بلکہ حقیقت کی طرح محسوس کر سکیں گے۔‘

ان کے مطابق، ’ہر شو میں ان کی اصل آواز، سنیماٹوگرافک مناظر، سٹیج ایفیکٹس کے ساتھ ان کی تھری-ڈی ہولوگرافک پروجیکشن شامل ہوگی۔‘

’پنجاب سے ٹورنٹو، لندن سے ایل اے – یہ سفر تاریخ رقم کرے گا۔‘

اس ٹور کو ’پلیٹینم ایونٹس‘ کی جانب سے پیش کیا جائے گا۔

اس تمام تر پس منظر میں یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ ہولوگرام ٹیکنالوجی دراصل ہے کیا، کیا اس ٹیکنالوجی سے پہلے بھی اس طرح کے کنسرٹ ہو چکے ہیں، یہ ٹیکنالوجی کہاں کہاں استعمال ہو رہی ہے، اور کیا سدھو موسے والا پہلے انڈین فنکار ہوں گے جن کا ہولوگرام کنسرٹ ہونے جا رہا ہے؟

ہولوگرام کیا ہوتا ہے؟

ہولوگرام ایک تھری-ڈی تصویر ہوتی ہے جو ریڈی ایشن یا لیزر بیم کی مدد سے بنائی جاتی ہے۔

کیمبرج ڈکشنری کی ویب سائٹ کے مطابق ’ہولوگرام ایک خاص قسم کی تصویر ہوتی ہے جسے لیزر بیم کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس تکنیک کے ذریعے تصویر ٹھوس اور حقیقی لگتی ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک فلیٹ امیج ہوتی ہے۔‘

ہولوسینٹر (مرکز برائے ہولوگرافک آرٹس) کے مطابق، ایک ہولوگرافک تصویر کو کسی روشن ہولوگرافک پرنٹ پر دیکھ کر، لیزر کی شعاؤں یا کسی سکرین پر پروجیکٹ کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس تکنیک کے ذریعے چلتی پھرتی تصویر بنائی جا سکتی ہے۔

اب تک کن موسیقاروں کے ہولوگرافک کنسرٹ ہوئے ہیں؟

پہلے بھی کئی بین الاقوامی سٹارز کے ہولوگرافک کنسرٹ ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور ہولوگرام شو ریپر ’ٹوپاک شکور‘ کا تھا۔ سنہ 2012 میں کوچیلا فیسٹیول میں ٹوپاک شکور کی ہولوگرافک تصویر نے سنوپ ڈاگ کے ساتھ پرفارم کیا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس کنسرٹ پر اس وقت 4 لاکھ ڈالر خرچ آئے اور اس کو تیار کرنے میں چار مہینے لگے۔

مشہور موسیقار مائیکل جیکسن کی موت کے تقریباً 5 سال بعد سنہ 2014 میں بل بورڈ میوزک ایوارڈز کے دوران ان کی لائیو ہولوگرافک پرفارمنس ہوئی۔ اس وقت ان کی انٹری ایک سنہرے تخت پر ہوئی تھی اور وہ مشہور مون واک کرتے بھی دکھائی دیے تھے۔

سنہ 2016 میں گلوکارہ پیٹسی کلائن کا ہولوگرام شو ہوا تھا۔ کلائن 1963 میں ایک طیارہ حادثے میں فوت ہو گئی تھیں۔

اسی طرح بڈی ہولی، لیبرس جیسے کئی دیگر فنکاروں کے بھی ہولوگرافک کنسرٹ ہو چکے ہیں۔

اگر سدھو موسے والا کا یہ شو واقعی ہولوگرام ٹیکنالوجی کے ذریعے کیا جاتا ہے، تو وہ پہلے انڈین سٹار ہوں گے جن کی ہولوگرافک پرفارمنس ہوگی۔

سنہ 2012 میں ٹوپاک شکور کو ہولوگرام کے ذریعے پیش کیا گيا تھا
Getty Images
سنہ 2012 میں ٹوپاک شکور کو ہولوگرام کے ذریعے پیش کیا گيا تھا

ہولوگرام ٹیکنالوجی کا استعمال کہاں کہاں ہو رہا ہے؟

ہولوگرام ٹیکنالوجی کا استعمال صرف کنسرٹ کے لیے ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی میدانوں میں ہو رہا ہے۔

آسٹریلیا کے ’ہولوگرام زو‘ میں آپ ڈائنوسار سے لے کر گوریلا تک تقریباً 50 اقسام کے جانوروں کی ہولوگرافک تصویر اپنے اردگرد چلتی پھرتی دیکھ سکتے ہیں۔

اس ہولوگرام چڑیا گھر کے بانی اور ’اگزیئم ہولوگرافکس‘ کے چیف ایگزیکٹو بروس ڈیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلے تو آپ ان ہولوگرافک تصاویر کو دیکھ کر ہنسیں گے، لطف اٹھائیں گے، لیکن جب 30 میٹر لمبی وہیل کی ہولوگرافک تصویر آپ کے قریب سے گزرے گی تو کچھ دیر کے لیے آپ دنگ رہ جائیں گے۔‘

ہولوگرام ٹیکنالوجی کا استعمال آرٹ فیسٹیولز میں بھی ہو رہا ہے۔ ’دی ڈریمی پلیس فیسٹیول‘ کے ذریعے ایسے کئی ایونٹس منعقد کیے گئے ہیں جن میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تاریخ کو عوام کے لیے پیش کیا گیا اور مستقبل کی جھلکیاں بھی دکھائی گئیں۔

اس ٹیکنالوجی کا استعمال میڈیکل فیلڈ میں بھی کیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں ہولوگرافک تصاویر کے ذریعے تعلیم دی جا رہی ہے۔ میڈیکل طلبہ کو ہولوگرافک تصویروں کے ذریعے انسانی جسم کے اعضا کے بارے میں تفصیل سے بتایا جا رہا ہے۔

سرجری اور تحقیق کے میدان میں بھی یہ تکنیک کافی کارآمد ثابت ہو رہی ہے۔ سکاٹ لینڈ میں ایک خاتون ’سوزان‘ پر پہلی ہولوگرافک سرجری کی گئی۔ ان کے گلے میں کینسر تھا اور سرجری کے لیے ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ ان کی سب سے بڑی لعاب غدود کو نکالنا پڑے گا، جس میں چہرے کی رگیں موجود ہوتی ہیں۔ اس سے ان کے چہرے کی ساخت متاثر ہو سکتی تھی۔

لیکن نئی ہولوگرام ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈاکٹر ان رگوں کی درست جگہ جان سکے، جس کی وجہ سے صرف غدود کو کاٹا گیا اور مکمل طور پر نکالنے کی ضرورت نہ پڑی۔

ہولوگرام ٹیکنالوجی کا مستقبل

اگزیئم ہولوگرافک کے چیف ایگزیکٹو بروس ڈیل نے بی بی سی کو بتایا: ’ہولوگرام کے میدان میں ایک انقلاب برپا ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو کبھی سائنس فکشن کا حصہ ہوا کرتی تھی، لیکن اب ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ ہولوگرام ایک مہنگی ٹیکنالوجی ہے، لیکن اسے سستا بنانے پر دنیا بھر میں تحقیق ہو رہی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کے لیے بڑی مقدار میں کمپیوٹنگ پاور کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلے ایک شو کرانے کے لیے کئی کمپیوٹرز کو ایک ساتھ جوڑا جاتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ یہ تعداد کم ہو رہی ہے۔ اُمید ہے کہ جلد ہی ایسی ٹیکنالوجی آ جائے گی جب ایک ہی کمپیوٹر سے پورا شو کرایا جا سکے گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts