نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سمیت 18 ملزمان بری، لواحقین کا فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

 naqeeb mehsood

،تصویر کا ذریعہtwitter

،تصویر کا کیپشنعدالت نے فیصلے میں کہا کہ نقیب اللہ کو اغوا کر کے جعلی پولیس مقابلہ کیا گیا تاہم ملزمان کی جائے وقوعہ پر موجودگی ثابت نہیں کی جاسکی

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں انسداد دہشتگردی عدالت نے پانچ برس قبل مشکوک پولیس مقابلے میں قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے مقدمے میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 15 ملزمان کو بری کر دیا ہے۔

عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ اغوا اور جعلی پولیس مقابلہ تھا لیکن استغاثہ ملزمان کی جائے وقوعہ پر موجودگی اور اس عمل میں ملوث ہونے کو ثابت نہیں کر سکا۔

نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق قتل کے اس مقدمے میں راؤ انوار سمیت 25 پولیس اہلکاروں کو نامزد کیا گیا تھا جن میں سے 18 کو بری کر دیا گیا جبکہ عدالت کا کہنا ہے کہ سات مفرور ملزمان کے بارے میں فیصلہ ان کی گرفتاری کے بعد سنایا جائے گا۔

18 ملزمان پر 25 مارچ 2018 کو فرد جرم عائد ہوئی تھی جبکہ رواں سال 14 جنوری کو مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جو پیر کو سنایا گیا۔

Facebook پوسٹ نظرانداز کریں
Facebook کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Facebook کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Facebook ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Facebook پوسٹ کا اختتام

جج نے فیصلہ سنانے سے پہلے کہا کہ نقیب اللہ کا اغوا اور جائے وقوع پر ان کا قتل ثابت ہوا ہے جبکہ نقیب اللہ پر دہشت گردی کی ایف آئی آر سی کلاس ہونے کے بعد اسے چیلینج نہ کیے جانے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ بےگناہ تھے تاہم عدالت نے قانونی اور تیکنیکی بنیادوں پر اس معاملے کا جائزہ لیا ہے جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نامزد ملزمان اس قتل میں ملوث تھے۔

اس کیس میں مدعیان کی قانونی ٹیم کے رکن وکیل جبران ناصر نے کہا ہے کہ نقیب محسود کے اہل خانہ اس فیصلے کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے۔ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’توانائی سے انصاف تک پاکستان میں ہر چیز کا بریک ڈاؤن ہو رہا ہے‘۔

راؤ انوار، بری، نقیب اللہ
،تصویر کا کیپشنسابق پولیس افسر راؤ انوار کی بریت کا منظر

اپنی بریت کے فیصلے پر راؤ انوار نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جج نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ جب تک سانس ہے تب تک لڑوں گا۔‘

پولیس مقابلے کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میرے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ جھوٹا کیس انجام کو پہنچ گیا۔‘

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ اور ان کے تین ساتھیوں کو 13 جنوری 2018 کی صبح کراچی میں پولیس اہلکاروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار دعویٰ کیا تھا کہ ان کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے تھا۔

نقیب اللہ کے والد اور اہلخانہ اس پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیتے رہے اور ان کا موقف تھا کہ نقیب اللہ کا کسی شدت پسند گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے بھی پولیس کی جانب سے مقابلے کے دعوے کو مسترد کیا تھا۔

بعدازاں جنوری 2019 میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہی نقیب اللہ محسود کے خلاف دہشت گردی، اسلحہ و بارود رکھنے کے الزام میں دائر پانچوں مقدمات خارج کردیے تھے اور قرار دیا تھا کہ نقیب اللہ کے سوشل میڈیا پروفائل سے معلوم ہوتا ہے کہ 'وہ ایک لبرل، فن سے محبت کرنے والا نوجوان تھا جو ماڈل بننے کا خواہشمند تھا۔'

PTM

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشننقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا

نقیب اللہ کے کزن نور رحمان نے اس واقعے کے بعد بی بی سی کو بتایا تھا کہ نقیب اللہ 2008 میں کراچی آئے تھے جہاں وہ حب چوکی میں فیکٹری میں کام کرتے تھے۔

ان کے مطابق نقیب اللہ نے کپڑے کے کاروبار کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے سہراب گوٹھ میں دکان بھی کرائے پر لے لی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

 راؤ انوار

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن راؤ انوار نے نقیب اللہ کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے ظاہر کیا تھا

’انصاف میں تاخیر ہی سب سے بڑی ناانصافی تھی‘

راؤ انوار کی بریت پر سیاسی و سماجی حلقوں سے لے کر عام صارفین سبھی نے سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور وہ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ پانچ سال کی تاخیر کے باوجود تاحال نقیب اللہ محسود کے اہلخانہ کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔

صحافی اجمل جامی نے حیرت ظاہر کی کہ 'مقدمے میں 51 گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے۔ پانچ سال نقیب اللہ محسود قتل کیس عدالتوں میں زیر سماعت رہا۔ اور اب کہا جا رہا ہے شواہد ناکافی ہیں۔'

قرۃ العین نے اس کیس کے حوالے سے کہا کہ انصاف میں تاخیر ہی سب سے بڑی ناانصافی تھی۔

بہت سے صارفین نے نقیب کے والد محمد خان کی 2018 میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کا بھی ذکر کیا جس میں آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ انصاف کے لیے فوج ان کا تمام تر ساتھ دے گی۔

بیٹے کے مقدمۂ قتل میں انصاف کے منتظر محمد خان کی وفات 2019 میں کینسر سے ہوئی تھی۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام

نقیب اللہ کیس اور پی ٹی ایم

یہ نقیب اللہ کی ہلاکت ہی تھی جس کے خلاف اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دیا جانے والا دھرنا پشتون تحفظ موومنٹ کے سامنے آنے کی وجہ بنا۔

احتجاج کے ان دس روز میں منظور پشتین کی ایک چھوٹی سی مقامی تنظیم پشتونوں کی ایک طاقتور آواز کے طور پر اُبھری اور اس کا نام تبدیل کر کے ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ رکھ دیا گیا۔

نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے دو ہفتے بعد منظور پشتین نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد تک مارچ  کیا اور پریس کلب کے باہر مظاہرین نے ڈیرہ ڈالا اور دھرنا دیا تھا۔

پی ٹی ایم نے ابتدائی طور پر چھ مطالبات پیش کیے جن میں راؤ انوار کی گرفتاری، سابقہ قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں اور فوجی چیک پوسٹوں کا خاتمہ اور لاپتہ ہونے والے پشتونوں کی برآمدگی اور قبائلی عوام کے ناموس کی بحالی جیسے مطالبات شامل تھے۔