’پنچایت‘: گاؤں کی زندگی پر بننے والا ڈرامہ انڈیا میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ کیوں بنا رہا ہے؟

پنچایت

،تصویر کا ذریعہGAUTAM LALWANI

  • مصنف, گیتا پانڈے
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، دلی

آج کل انڈیا میں ایک شہری بابو کی ایک دور دراز گاؤں میں زندگی کے گرد گھومنے والا مزاحیہ ڈرامہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور اب یہ ڈرامہ مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔

ایک تازہ ترین جائزے کے مطابق ’پنچایت‘ نامی ڈرامے کا دوسرا سیزن سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ڈراموں میں شامل ہو چکا ہے۔

اب تک پنچایت کے دوسرے سیزن کو تین کروڑ سے زیادہ ناظرین دیکھ چکے ہیں اور آئی ایم ڈی بی کی ریٹنگ کے مطابق لوگ اسے پسندیدگی کی رینکنگ میں اسے دس میں سے 8.9 نمبر دے رہے ہیں جو کہ معروف سیریل ’ہاؤس آف ڈریگن‘ اور ’سٹرینجر تھِنگز‘ کے چوتھے سیزن کی ریٹنگ سے زیادہ ہے۔

مگر پنچایت میں ایسا کیا ہے کہ کروڑوں ہندوستانی اس کی محبت میں گرفتار ہو گئے ہیں۔

ڈرامے کی کہانی بالکل سادہ سی ہے۔ شہر میں اچھی ملازمت نہ ملنے کے بعد، پنچایت کا مرکزی کردار ابھیشیک تریپاتھی، جس کے پاس انجنیئرنگ کی ڈگری ہے، وہ بظاہر انڈیا کی شمالی ریاست اترپردیش کے کسی دور دراز گاؤں میں کم آمدنی والی سرکاری ملازمت پکڑ لیتا ہے۔ سرکاری افسر کا یہ کردار جتندر کمار ادا کر رہے ہیں۔

ابھیشیک کی تنخواہ تو معمولی ہے ہی، لیکن جس تین کمرے کے گھر میں وہ رہتا ہے وہ بھی دراصل مقامی پنچائت کا گرد آلود دفتر ہے۔ اس کے دفتر میں کام کرنے والے دوسرے افراد کم پڑھے لکھے مرد ہیں۔ یہاں ابھیشیک سارا دن مقامی لوگوں کے چھوٹے موٹے مسائل نمٹاتا رہتا ہے اور اس کی اکیلی راتیں بار بار بجلی کی بندش اور کبھی کبھار سانپوں سے جان بچانے میں گزر جاتی ہیں۔

پنجایت

،تصویر کا ذریعہGAUTAM LALWANI

،تصویر کا کیپشناس تصوراتی گاؤں کا نام پھلیرا ہے

دیہات کی اس بے رنگ زندگی سے پیچھا چھڑانے کے لیے ابھیشیک ایک امتحان کی تیاری شروع کر دیتا ہے جس کے لیے وہ ساری ساری رات پڑھتا رہتا ہے۔

لیکن جوں جوں دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے جاتے ہیں، ابھیشیک کی بیزاری کم ہونے لگتی ہے، اس کی نئی دوستیاں بن جاتی ہیں اور پھر اس کی زندگی میں رومان کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں شہری اور دیہی زندگی کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے، وہاں ’پنچایت‘ اپنے ایسے دیکھنے والوں کو دیہی زندگی کی ایک ایسی جھلک دکھاتا ہے جو شہروں میں رہتے ہیں اور انھیں دیہی زندگی کا ادراک بہت کم ہی ہوتا ہے۔

لگتا ہے کہ ایک نوجوان سرکاری ملازم اور اس کے سادہ لوح دوستوں کی یہ کہانی، جس میں مزاح کی چاشنی اور ہمدردی بھی دکھائی دیتی ہے، اس نے ناظرین کے دل جیت لیے ہیں۔

چندی گڑھ کی رہائشی اور انگریزی ادب کی ریٹائرڈ لیکچرار، نیل کمال پوری کہتی ہیں کہ انھوں نے بھی کورونا کی وبا کے دوران یہ ڈرامہ دیکھا تھا۔

’ہمارے ارد گرد کی دنیا بند ہو چکی تھی، اور لگتا تھا کہ ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی ہے، ایسے میں مجھے لگا کہ ہم سب کو اسی قسم کے ڈرامے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی ایسی چیز تھی جسے دیکھ کر اچھا محسوس ہوتا تھا۔‘

اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ پنچایت ایک زبردست شو ہے جو ’بہترین اداکاری‘ کی وجہ سے سب سے الگ دکھائی دیتا ہے۔

پنچایت

،تصویر کا ذریعہGAUTAM LALWANI

نیل کمال پوری کے مطابق ’اس سیریز میں ہمیں بہترین توازن دکھائی دیتا ہے۔ اس میں نہ تو دیہات کی زندگی کو رومانوی انداز میں دکھایا گیا ہے اور نہ ہی برا بھلا کہا گیا ہے۔ اس کا مزاح بڑا جاندار ہے، لیکن اس میں چرب زبانی نہیں دکھائی دیتی کیونکہ اس ڈرامے میں ’نہایت سنجیدہ مسائل‘ پر بات کی گئی ہے۔

ادیب اور فلموں کے تبصرہ نگار، سیبل چیٹرجی کہتے ہیں کہ ’ہر کوئی اس شو کا دیوانہ ہو گیا ہے کیونکہ یہ حقیقت کے بہت قریب ہے اور ہر کسی کو اس میں اپنا آپ دکھائی دیتا ہے۔‘

سبیل چیٹرجی کےخیال میں چونکہ یہ شو درمیان کی بات کرتا ہے اسی لیے اس میں عام لوگوں کی سادہ کہانیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اس قسم کے کھیل سنہ 1980 اور 90 کے عشروں میں بھی بہت مقبول ہوا کرتے تھے، لیکن پھر ان کا رواج ختم ہو گیا اور ان کی جگہ فیملی ڈرامہ اور ایکشن نے لے لی۔‘

’آج کل اکثر ڈراموں میں جاسوسوں اور جرائم کی دنیا کی کہانیاں نظر آتی ہیں، اسی لیے آپ جب ایکشن اور مار دھاڑ سے بھرپور شوز کے درمیان پنچایت کو دیکھتے ہیں تو آپ کو خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ پنچایت کی کہانی بالکل حقیقی کام کرتے ہوئے حقیقی کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔‘

اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بڑی گہرائی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ مزاح سے بھرپور ہے اور دیکھنے والوں کے مزاج پر گراں نہیں گزرتا۔ اس میں سنجیدہ مسائل پر بات کی گئی ہے، لیکن بڑے ہلکے پھلکے انداز میں۔ یہ شو ہے تو مزاحیہ لیکن سوچ بہت سنجیدہ ہے۔‘

پھلیرا کی پنچایت کی سربراہ تو ایک خاتون ہے، لیکن اصل طاقت اس کے شوہر کے ہاتھ میں ہے اور طاقت کا جوڑ توڑ کیسے کرنا ہے، اس کا فصیلہ اس بات پر نہیں کیا جاتا کہ اس کی ضرورت کہاں پر ہے، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ گاؤں کی اہم شخصیات کون ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پنچایت میں شامل لوگ اصل میں گاؤں کے امیر لوگ ہیں لیکن انھیں دیکھیں تو ایسے لگتا ہے جیسے ان کے پاس بنیادی ضروریات کے پیسے بھی نہیں ہیں۔

پنچایت کے خالق سکرپٹ رائٹر چندن کمار کے مطابق وہ ایک ایسا شو بنانا چاہتے تھے جو لوگوں کو دیہی زندگی میں جھانکنے کا موقع دے لیکن ’اس میں تبلیغ کا عنصر زیادہ نہ ہو۔‘

’ہم چاہتے تھے کہ اس میں ہنسی مذاق ضرور ہو کیونکہ لوگ شوز محظوظ ہونے کے لیے دیکھتے ہیں، لیکن سنجیدہ مسائل سے فرار بھی مشکل ہوتا ہے۔‘

پنچایت

،تصویر کا ذریعہGAUTAM LALWANI

چندن کمار کہتے ہیں کہ پنچایت کے کردار حقیقی لوگوں کو سامنے رکھ کر نہیں بنائے گئے، لیکن اس ڈرامے میں جو چیزیں دکھائی گئی ہیں ان کے پیچھے حقیقی واقعات موجود ہیں۔’

ڈرامے کے مرکزی کردار، ابھیشیک کے بارے میں مسٹر کمار کا کہنا تھا کہ وہ ’ایک تبدیلی سے گزر رہا ہوتا ہے، یہ اس کی پہلی ملازمت ہے، اسی لیے میں دکھانا چاہتا تھا کہ وہ مشکلات سے کیسے نمٹتا ہے اور ان سے کیا سبق سیکھتا ہے۔‘

نیل کمال پوری کہتی ہیں کہ وہ پنچایت کے تیسرے سیزن کا انتظار کر رہی ہیں، جو اسی سال دکھایا جائے گا۔

اگرچہ چندن کمار نے یہ تو نہیں بتایا کہ تیسرا سیزن کب شروع ہوگا لیکن ان کا وعدہ ہے کہ ’یہ کہانی آئندہ چند سیزن تک جاری رہے گی۔‘