عمران خان ’جیل بھرو تحریک‘ سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

عمران خان

،تصویر کا ذریعہEPA

  • مصنف, سَحر بلوچ
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے 22 فروری سے ’جیل بھرو تحریک‘ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا آغاز لاہور سے کیا جائے گا۔

عمران خان کی جانب سے یہ اعلان ایک ویڈیو بیان میں کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ 22 فروری سے شروع ہونے والی تحریک ملک کے دیگر بڑے شہروں میں پھیلائی جائے گی۔

اس بارے میں ہم نے کچھ عرصہ قبل سیاسی تجزیہ کاروں سے یہ سوال پوچھا تھا کہ اس حکمت عملی سے عمران خان کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

عمران خان کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب ایک جانب تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے بعد جلد از جلد انتخابات منعقد کروانے کا مطالبہ کر رہی ہے تو دوسری جانب حال ہی میں حالیہ دنوں میں سابق وزرا فواد چوہدری اور شیخ رشید کو مختلف کیسز میں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔

ان گرفتاریوں کے بعد ہی عمران خان نے اس حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اس طرح کا تشدد کرتے رہیں گے اور ہم چپ کرکے بیٹھے رہیں گے تو بہتر یہ ہے کہ بجائے سڑکوں پر نکلنے اور توڑ پھوڑ کرنے کے، ہماری جماعت تیاری کرے جیل بھرو تحریک کی۔ اور ہم انشا اللہ پاکستان کی تمام تر جیلوں کو بھر دیں گے تاکہ ان کا شوق پورا ہو جائے۔‘

تاہم اس اعلان کے بعد جہاں یہ ابہام باقی ہے کہ جیل بھرو تحریک کا آغاز کیسے اور کب ہو گا وہیں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آیا یہ حکمت عملی تحریک انصاف کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند ہو گی یا نقصان دہ؟

عمران خان کے اس بیان کے بعد تاحال ’جیل بھرو تحریک‘ کا آغاز نہیں ہوا تاہم ان کی جماعت اور خاص طور سے مختلف فورمز پر یہ اعلان زیرِ بحث ہے۔

ماہرین ملک میں جاری شدید معاشی بحران کی نشاندہی کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ ایسا کوئی بھی قدم پاکستان میں مزید ’سیاسی افراتفری کا باعث بن سکتا ہے۔‘

ان سوالوں کے جواب جاننے سے قبل یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ جیل بھرو تحریک کے خدوخال کیا ہوں گے اور خود تحریک انصاف اس تحریک کا آغاز کیسے کرے گی؟

’موجودہ نظام مفلوج ہو جائے گا‘

اس بارے میں جب ہم نے تحریک انصاف سے رابطہ کیا تو پارٹی کے ایک رکن نے بتایا کہ ’اس تحریک کے پہلے فیز میں جماعت کے سینیئر ارکان، پارلیمانی لیڈر خود جیل جائیں گے جبکہ دوسرے فیز میں 500 پارٹی ورکر مختلف صوبائی حلقوں سے سرینڈر کریں گے۔‘

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اس تحریک سے آنے والے انتخابات جیتنے میں کیسے مدد ملے گی تو انھوں نے کہا کہ ’اس وقت ہم احتجاج کر رہے ہیں اور سوچ بھی یہی ہے کہ یہ گرفتاریاں چلتی رہیں گی تو بہتر ہے کہ پہلے خود گرفتار ہو جائیں۔‘

لیکن پارٹی رہنما اس بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں؟

تحریک انصاف رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جیل بھرو تحریک جلد الیکشن کروانے کی جدوجہد کا حصہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ ایک، یا تو ہم خود تشدد کا راستہ اختیار کریں۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ سبمِٹ کریں۔ تو ہم نے سرینڈر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی جیلوں کو بھرنے سے موجودہ نظام مفلوج ہوجائے گا۔ اور انشااللہ بہت بڑی تعداد میں لوگ گرفتاریاں دیں گے۔‘

تاہم پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ حکومت تحریک انصاف کے کسی بھی رکن یا رہنما کو بنا کسی مقدمے یا وارنٹ گرفتاری حراست میں نہیں لے گی۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پارٹی نے اب تک عمران خان کے اس اعلان پر کوئی جوابی حکمت عملی نہیں بنائی۔

’عمران خان بڑا رسک اٹھا رہے ہیں‘

عمران خان

،تصویر کا ذریعہIMRAN KHAN/FACEBOOK

واضح رہے کہ ’جیل بھرو تحریک‘ برصغیر میں سیاسی حکمت عملی کا پرانا حربہ رہا ہے جسے پاکستان اور انڈیا کی آزادی سے قبل مقامی طور پر آزمایا جاتا رہا۔

تاہم سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان ایک بہت بڑا رِسک اٹھا رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے کارکنوں کو پنجاب پولیس کے حوالے کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پنجاب پولیس جس قسم کا جسمانی اور نفسیاتی دباؤ ڈالتی ہے اس دوران بہت سے لوگ معافی نامہ دے کر بھاگ جاتے ہیں۔‘

’ہم نے دیکھا کہ کس طرح سے پی ٹی آئی کے ٹاپ لیڈرز ایک دو روز کی گرفتاری کے بعد رو پڑے۔ تو وہ بچے جو ہمارے ہی طبقے سے ہیں اور ایک مخصوص زندگی گزارتے ہیں، ان کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا۔‘

صحافی نصرت جاوید بھی کچھ ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ایسی تحریک چلانے کے لیے سخت جان لوگ درکار ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر کارکنان بھی سامنے آسکیں اور گرفتاریاں دیں۔ لیکن اگر وہ فواد چوہدری کو روتا دیکھیں گے تو وہ سوچنے پر مجبور ہونگے کہ ان کا کیا بنے گا۔‘

عمران خان کی مزاحمت کا تیسرا دور

پاکستان

،تصویر کا ذریعہReuters

ماہرین کے مطابق عمران خان اس وقت اپنی مزاحمت کے تیسرے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔

اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے دھرنے دیے۔ پھر مئی 2022 اور نومبر 2022 میں اسلام آباد تک لانگ مارچ اور اسی دوران اسمبلیوں سے استعفے بھی دیے گئے جبکہ تازہ ترین حکمت عملی کے تحت صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پر دھاوا بولنے اور اسمبلیوں سے استعفوں کی تحریک ناکام ہونے کے بعد اب ایسا تاثر ملتا ہے کہ ’عمران خان اس وقت دباؤ میں ہیں۔‘

تاہم ضیغم خان نے کہا کہ ’ہم چیزوں کو جس طرح سے دیکھتے ہیں ویسے عمران خان نہیں دیکھتے۔ عمران خان ایک پوپلسٹ لیڈر ہیں۔ اور ان کے نزدیک صحیح اور غلط ہونے کا معیار وہ خود طے کرتے ہیں۔ اور یہی ان کی مقبولیت کا راز بھی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جیسے عمران خان سمجھتے ہیں کہ ملک کا فائدہ صرف اسی میں ہے کہ وہ خود حکمران ہوں۔ اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو وہ نہیں مانتے اور اسے بیرونی سازش کہتے ہیں۔‘

ضیغم خان نے کہا کہ ’عمران خان ہمیں بتاتے آئے ہیں کہ اگر وہ حکمران نہیں ہونگے تو ملک کا برا حال ہوجائے گا۔ ان باتوں کے پسِ منظر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ اپنے حالیہ اعلان کا اخلاقی اور معاشی پہلو بھی نہیں دیکھیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’قانون توڑے بغیر لوگوں کو جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا‘

صحافی نصرت جاوید نے ایک اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ یہ تحریک کیسے عمل میں آئے گی؟ لوگوں کو بغیر قانون توڑے جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی یہ اختیار جیل سپرانٹینڈنٹ کے پاس ہے۔‘

جبکہ ضیغم خان نے کہا کہ ’اس وقت تاثر یہ مل رہا ہے کہ عمران خان پہلی دو پالیسیوں کے ناکام ہونے کے بعد اب دباؤ کا شکار ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر ان کی جگہ کوئی اور لیڈر ہوتا تو وہ ایک دو بار سوچتا کیونکہ ملک پہلے سے ہی بدترین معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ ایک معاشی بحران میں ایک سیاسی افراتفری کو شامل کرنا خطرناک بات ہے۔‘

ضیغم خان نے کہا کہ ’عمران خان اس وقت معاشی بحران سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس وقت سیاسی بحران کا دوسرا نام عمران خان ہے۔ جیل بھرنے کی تحریک تب شروع کی جاتی ہے جب کوئی اور حل یا طریقہ کار نہ ہو۔ جیسا کہ ایم آر ڈی تحریک ضیا الحق کے دور میں ابھری تھی۔ تب سڑک پر نکل کر نعرے مارنا خبر بن جاتی تھی۔ آج کے دور میں یہ سٹریٹجی نہیں چل سکتی۔‘