’کھلونا ٹرین‘: 46 کلومیٹر کا فاصلہ پانچ گھنٹوں میں طے کرنے والی سست ترین ریل کا سفر

Train

،تصویر کا ذریعہDethan Punalur/Getty Images

  • مصنف, چوراکسی رامدورائے
  • عہدہ, بی بی سی ٹریول

بالی ووڈ فلم ’دل سے‘ نے بھلے ہی انڈین باکس آفس پر اچھا بزنس نہیں کیا لیکن فلم کا ایک گانا 25 سال بعد بھی بہت سے لوگوں کا پسندیدہ ہے۔

’چل چھیاں چھیاں۔۔۔‘ صرف اپنی دلکش دھن کی وجہ سے ہی یادگار نہیں ہے، بلکہ اس لیے بھی کیونکہ اسے ایک چلتی ٹرین کے اوپر فلمایا گیا تھا۔

اس گانے میں ’بالی ووڈ کنگ‘ کہلوائے جانے والے شاہ رخ خان ڈانسرز کے ایک گروہ کے ساتھ ٹرین کے چھت پر ڈانس کرتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ ٹرین سرسبز پہاڑی علاقوں، چائے کے باغات اور بھاپ نکالتے انجن کے ساتھ اونچے راستوں پر آہستہ آہستہ چلتی رہتی ہے۔

میں نے بھی اسی ٹرین میں سفر کیا ہے، حالانکہ میرا سفر شاہ رخ خان کے سفر سے کہیں زیادہ آرام دہ اور کم خطرناک تھا۔ نیلگیری ماؤنٹین ریلوے یا این ایم آر جسے مقامی لوگ زیادہ شوق سے ’کھلونا ٹرین‘ کہتے ہیں کا سفر ایک خوشگوار تجربہ ہے۔

India

،تصویر کا ذریعہRaimond/Getty Images

تامل ناڈو ریاست کے درمیان چلنے والی یہ ٹرین انڈیا کی سب سے سست رفتار ٹرین ہے اور یہ تقریباً 46 کلومیٹر کا سفر پانچ گھنٹوں میں طے کرتی ہے۔ اور اس کی سست رفتاری کی وجہ یہ ہے کہ اس کے راستے میں گہری گھاٹیاں اور اونچے پہاڑ ہیں۔ یہ نیلگیری کے دامن میں واقع میٹوپلائم قصبے سے انڈیا کے مشہور پہاڑی سیاحتی مقام اوٹی تک جاتی ہے۔ برطانوی دور میں اوٹی کو ’اوٹاکامنڈ‘ کہا جاتا تھا جسے بعدازں ہندوستانیوں نے مختصر کر کے اوٹی کر دیا۔

اس ٹرین میں واپسی کے سفر میں ایک گھنٹہ کم لگتا ہے اور اگر بذریعہ سڑک یہی سفر کریں تو بل کھاتے راستوں کی وجہ سے تقریباً ایک جتنا ہی وقت لگتا ہے۔

یقیناً میٹوپلائم قصبے سے اوٹی تک پہنچنے کے لیے آج کے دور میں کوئی بھی اس ٹرین کا سفر نہیں کرتا بلکہ اس کا سفر لطف لینے کے لیے بہت سے سیاح کرتے ہیں۔ یہ ٹرین اپنے سفر کے دوران 16 سرنگوں، 250 پلوں اور 208 بل کھاتے گہرائی والے موڑوں سے گزرتی ہے جو کہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔

اس ٹرین کے فرسٹ کلاس کے ٹکٹ کی قیمت 600 روپے ہے۔ اس کی اکانومی کلاس کے ٹکٹ کی قیمت 300 روپے ہے لیکن اس کی سیٹوں پر کُشن نہیں ہیں یعنی یہ آرام دہ نہیں ہوتیں۔

scening valley

،تصویر کا ذریعہSreekanth G/Getty Images

اوٹی کی ایک سرد صبح میں، میں اس فرسٹ کلاس کا ٹکٹ لے کر اس ٹرین پر سوار ہوا تھا کیونکہ میں نیلیگری کی دلکش وادیوں کے نظارے کا شاندار تجربہ کرنے کے لیے بے چین تھا۔

سدرن ریلوے کے سینیئر پبلک ریلیشن آفیسر ڈی اوم پرکاش نارائن جو اس ٹرین کا انتظام و انصرام دیکھتے ہیں نے مجھے بتایا کہ ’جب آپ ٹرین میں سوار ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے آپ کسی اور ہی دنیا میں آ گئے ہیں۔‘

جب میں اس ٹرین کی ایک چھوٹی سی بوگی میں سوار ہوا تو میں دیکھ سکتا تھا کہ اس نئی دنیا سے ان کی کیا مراد تھی کیونکہ اس بوگی میں بہت سے خاندان بچوں کے ہجوم کے ساتھ بوگی کی چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں کے ساتھ لگے باہر ان نظاروں کے منتطر تھے جن کا نیلگیری ریلوے نے ان سے وعدہ کیا تھا۔

جب ٹرین تاریک سرنگوں سے گزری تو مسافروں میں جوش و خروش کا ایک واضح احساس تھا، سبھی مسافر تفریح کے موڈ میں تھے اور خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے۔

اوٹی انڈیا کے قدیم ترین پہاڑی مقامات میں سے ایک ہے، اونچے و بلند پہاڑیوں پر واقع یہ شہر برطانوی راج کے دوران موسم گرما میں ایک پرفضا مقام تھا کیونکہ جب انگریزوں کو میدانی علاقوں کی سخت گرمی سے بچنے کی ضرورت ہوتی تو وہ یہاں کا رُخ کرتے۔ اوٹی آج بھی سیاحوں میں موسم گرما میں چھٹیاں گزارنے یا ہنی مون کے لیے مقبول ہے۔

آج اس پرہجوم چھوٹے سے شہر میں جدید انڈیا کے ساتھ ساتھ برطانوی نو آبادیاتی دور کے آثار پوشیدہ ہیں کیونکہ جیسے ہی ہم اوٹی کو پیچھے چھوڑتے ہیں تو ہمیں برطانوی دور کی یادگاریں نظر آنا لگتی ہیں، جن میں اس دور کے ریلوے سٹیشنوں کے نام جیسا کہ لوڈیل، ویلنگٹن، ایڈرلی اور رننی میڈ۔

ِانڈیا

،تصویر کا ذریعہCharukesi Ramadurai

شرنیا سیتارامن جنھوں نے حال ہی میں اپنے خاندان کے ساتھ اس ٹرین میں سفر کیا تھا کہتی ہیں کہ یہاں برطانوی دور سے کچھ بدلا ہوا محسوس نہیں ہوتا، لگتا ہے جیسے وقت یہاں رُک گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم تو آج بھی یورپی خواتین کو اپنے فینسی ہیٹز (خوبصورت ٹوپیوں ) کے ساتھ ان چھوٹے سٹیشنوں پر ٹرین سے اُترتے تصور کر سکتے ہیں۔‘

برطانوی راج کی باقیات نیلگیرس میں کئی پرانی عمارتوں کے ڈیزائن میں نظر آتی ہیں، دفاتر، بنگلے جن میں سے کچھ اب بوتیک، ہوٹل اور گرجا گھر بن چکے ہیں۔ نوآبادیاتی احساس اس قدر متاثر کن ہے کہ اوٹی سے صرف ایک گھنٹہ دوری پر واقع کوہ نور سٹیشن کو ای ایم فوسٹر کے افسانوی ناول ’اے پیسج ٹو انڈیا‘ سے ماخوذ ڈیوڈ لین کی سنہ 1984 کی فلم میں چندرپور کا افسانوی قصبہ دکھایا گیا تھا۔

ریٹائرڈ صحافی ڈی رادھا کرشنن جنھوں نے کئی دہائیوں تک نیلگیرس کے علاقے سے رپورٹنگ کی ہے کہتے ہیں کہ ’اس ٹرین میں لوگ اب بھی وہی چیزیں دیکھتے ہیں جو لوگوں نے 100 سال سے زیادہ پہلے دیکھی تھیں۔‘

30 سال سے زیادہ عرصے سے ریلوے کے تجربہ کار نارائن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’اوٹی اور کنور کے قدرتی وسائل کا ان کی ترقی کے نام پر استحصال کیا گیا ہے، اور جب آپ سڑک سے سفر کرتے ہیں تو یہ آپ کو نظر آتا ہے۔ لیکن جب آپ اس ٹرین سے سفر کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے۔ جیسے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔‘

سفر کے دوران ہم مون سون کے دوران پیدا ہونے والی آبشاروں اور چائے کے باغات سے گزرے جہاں مزدور چائے کے پتے توڑ رہے تھے۔ میں مسلسل کھڑکی سے باہر جھکتا ہوا ٹرین کے سانپ کی طرح بل کھاتے موڑ دیکھتا رہا اور جھاڑیوں میں آوارہ انڈین بائسن یا ہاتھی کی جھلک دیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔

سفر کے دوران مسلسل سرگرمی تھی لوگ راستے میں مختلف سٹیشنوں پر واک کرنے اور تصاویر لینے کے لیے اُتر رہے تھے۔ کچھ سٹیشن مسافروں کے اترنے کے لیے تھے جبکہ دیگر صرف بھاپ کے انجن کے لیے پانی بھرنے کے لیے ہیں۔ کنور میں پڑاؤ زیادہ طویل تھا، کیونکہ یہاں سے ڈھلوانوں پر زیادہ طاقت کے لیے ٹرین کو بھاپ سے چلنے والے انجن کی بجائے ڈیزل لوکوموٹیو سے تبدیل کیا گیا تھا۔

Train

،تصویر کا ذریعہUndefined/Getty Images

پُرسکون منظر اور ٹرین کے لطف نے مجھے بے سکونی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ ایک ’واٹر سٹاپ‘ پر میں نے مقامی دکانداروں کی طرف سے فروخت کی جانے والی گرم چائے اور خاص طرح کے مسالے دار پکوڑے کھائے۔ یہ سب تو انڈیا میں کسی بھی ٹرین کے سفر کے اہم لوازمات ہیں۔

منگلور میں مقیم صحافی سبھا جے راؤ، جو میتوپلائم کے قریب میدانی علاقوں میں پلے بڑھے ہیں، اپنے بچپن سے ٹرین کے سفر کی اسی طرح کی پرلطف یادیں رکھتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم ٹرین سے اتر سکتے تھے اور پھر اس ٹرین کے ساتھ ساتھ چل سکتے تھے (یعنی یہ اتنی آہستہ چلتی ہے)۔‘

’بڑوں کے طور پر ہم اب ٹرین کے سفر کے رومانس کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن بچپن میں ہم نے سٹیم انجن کے دھوئیں کے باوجود ٹرین کے سفر کا لُطف اٹھایا۔

نیلگیری ماؤنٹین ریلوے مغربی بنگال میں دارجیلنگ ہمالیائی ریلوے اور شمال میں ہماچل پردیش میں کالکا شملہ ریلوے کے ساتھ یونیسکو کی ماؤنٹین ریلوے آف انڈیا عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست کا حصہ ہیں۔

اس سب کا وجود انگریزوں کے مرہون منت ہے، جنھوں نے انھیں سخت گرمیوں کے دوران ٹھنڈے موسموں کے لیے آسان سفر کے قابل بنایا۔ لیکن رادھا کرشنن نے یہ بھی فوری وضاحت کی کہ ’وہ ریلوے کو مکمل طور پر اپنے آرام کے لیے لائے تھے، نہ کہ انڈین شہریوں کی بھلائی کے لیے۔ اگر وہ اسے اپنے ساتھ واپس لے جا سکتے، تو وہ واپس لے جاتے۔‘

انگریزوں کے ارادے کچھ بھی ہوں، اس انتہائی ویران پہاڑی علاقے پر اس ٹرین کی پٹری بچھانا اور راستہ بنانا انتہائی مشکل تھا۔ یونیسکو کے مطابق یہ ریلوے جو 326 میٹر سے 2,203 میٹر کی بلندی کو سر کرتی ہے، اس وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی نمائندگی کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

نارائن نے اس علاقے کی مشکلات اور ٹرین ٹریک کے چینلجز کی وضاحت کی۔ ان کے مطابق ٹرین کو اس پٹری پر رواں رکھنے کے لیے خاص طرح سے ڈیزائن کیا گیا تا کہ یہاں ٹرین پھسل نہ جائے۔

سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے انجینئرز نے اس سارے طریقے کو وضح کیا، جسے برطانوی انجنیئرز نے تعمیر کے ڈیزائن اور نگرانی کے لیے رکھا تھا۔ یہ ڈیزائن این ایم آر کے علاوہ آج صرف چند دوسری سوئس ریلوے لائنوں میں پایا جاتا ہے اور آج بھی یہ ٹھیک کام کر رہا ہے۔

ریل لائن پر کام سنہ 1891 میں شروع ہوا اور اسے مکمل ہونے میں 17 سال لگے۔ اس ٹرین کو شروع ہوئے اب 115 واں سال ہے۔ اوٹی خود سنہ 2023 میں ایک سنگ میل کی 200ویں سالگرہ منانے کی تیاری میں ہے۔

جب برطانوی اہلکار جان سلیوان نے پہاڑیوں میں اس شاندار بستی کو دیکھا اور اسے ’راج سمر ریٹریٹس‘ (گرمیوں کے تفریحی مقامات) کی فہرست میں شامل کیا۔

رادھا کرشنن کے مطابق اس ٹرین سروس کو غیرمنافع بخش ہونے کی وجہ سے بند کرنے کے کئی پلان بنائے گئے۔ لیکن یہ اوٹی کے سیاحتی شعبے کا ایک ایسا لازمی حصہ بن چکی ہے کہ اس طرح کے منصوبے بننے کے ساتھ ہی ناکامی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ’بہت سے لوگ یہاں صرف اس ٹرین میں سواری کے لیے آتے ہیں اور این ایم آر کے بغیر اوٹی کے بارے میں سوچنا بھی ناممکن ہے۔‘

اوٹی سے روانہ ہونے کے چار گھنٹے بعد جب ہم آخر کار میتوپلائم پہنچے تو مجھے راؤ کی یہ بات یاد آئی کہ ’اس ٹرین کا سفر کا مطلب اچھی یادوں میں گم ہو جانا ہے۔‘

’یہ احساس مجھے روزمرہ کی الجھنوں سے پرے لے جاتا ہے اور میرا دماغ ٹرین کی رفتار کے برابر سست ہو جاتا ہے اور یوں میں ماضی کے جھروکوں میں کھو جاتا ہوں جس کی مجھے اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔‘