پاکستانی ’بیرونِ ملک ٹیکسی چلانے کو ملک میں رہنے پر ترجیح‘ کیوں دے رہے ہیں؟

اسد، ڈاکٹر ارحم
،تصویر کا کیپشناسد اور ڈاکٹر ارحم سلیمان کئی دیگر نوجوانوں کی طرح بیرون ملک منتقل ہونے کی کوشش کرر ہے ہیں

’بیرونِ ملک نوکری کے بہتر مواقع موجود ہیں، پاکستان میں امیدوار زیادہ اور نوکریاں کم ہیں۔ میں اگر صرف اپنے شعبے کی بات کروں تو ریزیڈینسی ملنی بہت مشکل ہو گئی ہے کیونکہ میرٹ پر بھرتیاں نہیں ہوتیں، ایسے لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن کی جان پہچان یا سفارش ہو۔‘

یہ ڈاکٹر ارحم سلیمان ہیں جو پاکستان میں موجود کئی ڈاکٹرز کی طرح بیرونِ ملک منتقل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ارحم بتاتی ہیں کہ ’اگر پاکستان میں نوکری مل بھی جائے تو تنخواہیں اچھی نہیں۔ دوسری وجہ ملک کا ماحول ہے۔ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے، حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں، تحفظ کا احساس نہیں رہا، ٹیکسز آپ سے بہت زیادہ لیے جاتے ہیں لیکن اس حساب سے آپ کو سہولیات نہیں دی جاتیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’ابھی کچھ عرصہ پہلے میرا امتحان کی غرض سے مانچسٹر جانا ہوا تھا جہاں اکثر مجھے گھر پہنچتے پہنچتے رات ہو جاتی تھی لیکن وہاں مجھے کبھی ڈر نہیں لگا یا غیرمحفوظ محسوس نہیں ہوا۔‘

یہ خیالات صرف ارحم کے نہیں ہیں بلکہ آج کل آپ جس بھی محفل میں بیٹھیں تو بیرونِ ملک منتقل ہونے کے بارے میں بات ضرور سننے کو ملتی ہے۔ نوجوان یا تو بیرونِ ملک جانے کے مواقعوں کے بارے میں بات کرتے دکھائی دیتے ہیں یا پھر ادھیڑ عمر افراد جوانی میں بیرونِ ملک نہ جا پانے کا قصہ سنا کر رنجیدہ نظر آتے ہیں۔

ایک طرف برٹش کونسل کی تازہ ترین نیکسٹ جینریشن رپورٹ 2023 کے مطابق 68 فیصد پاکستانی نوجوان اپنا ملک چھوڑنا نہیں چاہتے لیکن دوسری جانب صرف اس سال فروری کے آخر تک سوا لاکھ سے زیادہ پاکستانی ملک چھوڑ چکے ہیں۔

اگر آپ سوشل میڈیا پر ایک سرسری سی نظر دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہر طرف پاکستان میں سیاسی ڈیڈلاک اور معاشی تنزلی کی بات کی جا رہی ہے۔

اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کو اس وقت سیاسی اور معاشی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن کیا ملک چھوڑنے کی اس بڑھتی ہوئی خواہش کے پیچھے اصل وجوہات یہی ہیں اور اس سب کا پاکستان کے مستقبل کے لیے کیا مطلب ہے۔

students

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

’خواتین میں شدید خدشات اور خوف پیدا ہو چکا ہے‘

پاکستان سے بیرونِ ملک منتقل ہونے والے افراد کی تعداد پر نظر دوڑائیں تو بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز امپلائمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2021 میں یہ تعداد تقریباً دو لاکھ 88 ہزار تھی جو سنہ 2022 میں تین گنا بڑھ کر سوا آٹھ لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔

اب صرف 2023 کے پہلے دو ماہ میں سوا لاکھ سے زیادہ پاکستانی بیرونِ ملک منتقل ہو چکے ہیں۔

صحت، تعلیم اور روزگار یہ وہ بنیادی ضروریات ہیں جن کا معیار ایک ملک کی ترقی یا تنزلی کا بتاتا ہے اور اس وقت پاکستان میں متوسط اور غریب طبقے کے لیے بنیادی ضروریات بھی ناکافی دکھائی دیتی ہیں۔

ملک پر قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا ہے کہ دیوالیہ پن کا خطرہ اب باتوں سے بڑھ کر حقیقت بھی بن سکتا ہے۔ ایسے میں بیشتر نوجوانوں کو اپنا مستقبل غیر محفوظ دکھائی دیتا ہے۔

ایک طرف سیاسی عدم استحکام رکنے کا نام نہیں لے رہا تو دوسری جانب صورتحال یہ کہ لوگوں کو سیاسی اور مذہبی تشدد کے باعث اپنی جان و مال کے لالے پڑے ہیں۔

ایسے میں جن کا پاس کچھ وسائل موجود ہیں انھیں اپنا اور اہلِخانہ کا مستقبل پاکستان سے باہر ہی نظر آتا ہے لیکن ظاہر ہے 22 کروڑ افراد تو ملک نہیں چھوڑ سکتے۔

لاہور میں مقیم سوشیولوجسٹ نبیہہ شاہرام اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ گذشتہ چند سال کے دوران سانحہ موٹروے، نور مقدم کیس، اسلام آباد ایف نائن پارک جیسے واقعات کے بعد جس طرح متاثرہ خاتون کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا گیا تو ایسے میں سکیورٹی کی عدم موجودگی نے خواتین میں شدید خدشات اور خوف پیدا کر دیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’انھیں لگتا ہے کہ کریئر کے ایسے مواقع جن میں انھیں سفر کرنا پڑے وہ پاکستان میں رہتے ہوئے ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتیں۔‘

stock

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

پاکستان میں اس وقت ایک اور مسئلہ طبقاتی فرق کا بھی ہے جو نوجوانوں کو ایک چھوٹی عمر سے ہی احساسِ کمتری اور مستقبل کے بارے میں پریشان کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

ملک میں جہاں ایک طبقے کے پاس نجی کالجوں میں اچھی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ہیں وہیں دوسری جانب متوسط اور غریب طبقے کے افراد سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کے رحم و کرم پر ہیں جہاں تعلیمی معیار میں دن بدن تنزلی دیکھنے کو ملتی ہے۔

نبیہہ شاہرام کہتی ہیں کہ ’سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعلیم کے معیار میں گذشتہ چند سال میں تنزلی دیکھنے کو ملی ہے۔ وہاں پر بچوں میں یہ احساس بہت عیاں ہے کہ اگر ہم یہاں رہیں گے تو ہم اس معاشرتی اور طبقاتی فرق کو کبھی ختم نہیں کر سکتے۔

’نجی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بچے باہر اس لیے جانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ جس قسم کی پڑھائی اور نوکری وہ کرنا چاہتے ہیں وہ پاکستان میں رہ کر نہیں کی جا سکتی۔‘

وہ پاکستان میں بڑھتی عدم برداشت کی جانب توجہ دلواتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اس کے علاوہ سوچ اور خیالات کی آزادی بھی بہت اہم ہے جو یہاں اکثر ایسے نوجوان جو خاص طبقے یا اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں انھیں تنگ کرتا رہتا ہے اور انھیں جان کا خطرہ لاحق رہتا ہے کیونکہ یہاں عدم برداشت بڑھ چکی ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’آپ کسی ڈاکٹر، استاد یا انجینیئر کی تنخواہ یا مراعات کا موازنہ بیرونِ ملک میں اسی پیشے سے منسلک افراد سے کریں تو کیا وہ یہاں رہ کر اپنے بچوں کو ویسی ہی زندگی گزارنے کے مواقع یا ویسی تعلیم دے سکتے ہیں؟ ان مسائل کا تدارک کرنے کے لیے تو فی الحال کوئی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔‘

کبھی دھرنا، راستے بند اور کبھی دفتر بند

ایسے بھی نوجوان ہیں جنھوں نے گذشتہ چند سال کے دوران پاکستان میں رہتے ہوئے سٹارٹ اپس اور اپنا کاروبار کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں اس دوران بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ایسی ہی ایک مثال اسد کی ہے جو پچھلے چار برس سے راولپنڈی میں ایک سافٹ ویئر ہاؤس چلا رہے تھے۔ اس سافٹ ویئر ہاؤس میں وہ مختلف ایپس بناتے ہیں اور پھر انھیں مارکیٹ کر کے پیسے کماتے ہیں۔

تاہم گذشتہ چھ ماہ کے دوران انھیں مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں بینکوں کی جانب سے 30 ہزار ڈالر فی سال کی حد مقرر کرنا، ڈالر کی قیمت کے حوالے سے ہمیں مشکلات شامل ہیں۔

YouTube پوسٹ نظرانداز کریں
Google YouTube کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔ YouTube کے مواد میں اشتہارات ہو سکتے ہیں۔

YouTube پوسٹ کا اختتام

یہ بھی پڑھیے

اسد بتاتے ہیں کہ ’جب ہم نے کوئی ادائیگی کرنی ہوتی تھی تو ہمیں اوپن مارکیٹ کا ریٹ دیا جاتا تھا لیکن جب ہمیں رقم موصول ہوتی تھی تو وہ انٹربینک کے ریٹ پر ہوتی تھی۔ یہ فرق 20 سے 30 روپے تک جا چکا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پھر ادائیگیوں پر ایڈوانس ٹیکس چار سے پانچ فیصد تک کا، اس پر ایف ای ڈی بھی لی جاتی تھی اور اس کے بعد بینک کی جانب سے اس پر ایڈجسمنٹ لگائی جاتی تھی، سات سے آٹھ فیصد۔

’پھر کبھی دھرنا، راستے بند اور کبھی دفتر بند۔ ایسے میں ہم نے سوچا کہ اب ہمیں کسی اور ملک جانا چاہیے اور ہم کچھ عرصے میں دبئی منتقل ہو رہے ہیں۔‘

’نوجوان بیرونِ ملک ٹیکسی چلانے کو پاکستان میں رہنے پر ترجیح دے رہے ہیں‘

یونیورسٹی آف مانچسٹر کی ڈاکٹر عنبر ڈار نے اسی موضوع پر بی بی سی سے تفصیل سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ’گذشتہ 10 سے 15 سال کے دوران پاکستان سے بیرونِ ملک منتقل ہونے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور اب چاہے کوئی امیر طبقے سے تعلق رکھتا ہو یا ورکنگ کلاس سے، ہر کوئی اس بارے میں سوچتا ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے باہر جانے کی کوشش کرتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ایسے بہت سے پاکستانی نوجوان دیکھے ہیں جو بیرونِ ملک جا کر ٹیکسی چلاتے ہیں یا کافی شاپ پر کام کرتے ہیں لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مستقبل پاکستان کی نسبت یہاں زیادہ مستحکم ہے۔

’لوگ سکون سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ بنیادی ضروریات نہ ہونے کے باعث انھیں پاکستان میں سکون میسر نہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح ہر شعبے میں ایک مخصوص سیاسی سوچ کا رجحان بڑھ گیا ہے جس کے باعث کام سے زیادہ لوگ تعلقات رکھنے پر توجہ دیتے ہیں اور اگر آپ تعلقات نہیں رکھتے لوگوں کے ساتھ تو آپ کے لیے آگے بڑھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان کے حکمرانوں کی کسی بھی بات سے ایسا نہیں لگتا کہ انھیں اس مسئلے کی شدت کا احساس ہے۔

’اگر ملک کے نوجوانوں کے ذہنوں میں پہلا خیال اس ملک سے باہر منتقل ہونا ہے تو پاکستان میں رہ کر اس کی بہتری کے لیے کام کرنے سے زیادہ ملک سے باہر نکلنے کے مواقعوں پر توجہ دیں گے۔‘