فرعون رامسیس دوم کے معبد سے ملنے والی حنوط شدہ مینڈھوں کی دو ہزار کھوپڑیاں کیا ایک ’نذرانہ‘ تھیں؟

reuters

،تصویر کا ذریعہReuters

مصر میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو دو ہزار سے زیادہ مینڈھوں کے حنوط شدہ سر ملے ہیں جو فرعون رامسیس دوم کو دیے جانے والے ایک پراسرار بھینٹ کا حصہ تھے۔

مصری وزارت سیاحت اور نوادرات کا کہنا ہے کہ یہ سر ابیڈوس میں دریافت کیے گئے، جو قدیم زمانے سے اس تہذیب کے قدیم مندروں اور مقبروں کے لیے مشہور ہے۔

مینڈھوں کے علاوہ اس مقام سے حنوط شدہ کتے، گائے، ہرن اور مونگوز بھی ملے ہیں اور ان سب کو نیویارک یونیورسٹی کے امریکی ماہرین آثار قدیمہ نے نکالا ہے۔

اس مشن کے سربراہ سامح سکندر نے کہا کہ مینڈھوں کے سر 'نذرانہ' تھے جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ 'رامسیس دوم کو چاہنے والے ایک فرقے نے اس کی موت کے 1000 سال بعد جشن منایا۔'

فرعون رامسیس دوم نے مصر پر 1304 سے 1237 قبل مسیح میں تقریباً سات دہائیوں تک حکومت کی لیکن ماہرین کے لیے یہ آج بھی ایک معمہ ہے کہ رامسیس دوم کو اتنے عرصے بعد بھی کیوں پوجا جاتا رہا۔

مصر کی قدیم نوادرات کی سپریم کونسل کے سربراہ مصطفیٰ وزیری کا کہنا ہے کہ ان نتائج سے لوگوں کو اس فرعون کے معبد اور 2140 سے 2374 قبل مسیح کے درمیان اس کی تعمیر کے بعد وہاں ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں مزید جاننے میں بھی مدد ملے گی۔

reuters

،تصویر کا ذریعہReuters

یہ بھی پڑھیے

حنوط شدہ جانوروں کی باقیات کے علاوہ، ماہرین آثار قدیمہ نے ایک محل کی باقیات بھی دریافت کیں جن کی پانچ میٹر موٹی دیواریں تقریباً 4000 سال پرانی ہیں۔

سکندر کا کہنا ہے کہ یہ ڈھانچہ 'رامیسس دوم کے معبد کی تعمیر سے پہلے ابیڈوس کے قدیم علاقے کی بحالی میں مدد کر سکتا ہے۔'

ماہرین کو مختلف مجسمے، پاپیری، قدیم درختوں کی باقیات، چمڑے کے کپڑے اور جوتے بھی ملے ہیں۔

ایبڈوس شہر، جو قاہرہ سے تقریباً 435 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے نیل کے کنارے واقع ہے، سیٹی اول کے ساتھ ساتھ اس کے مقبرے کے لیے بھی مشہور ہے۔

یہ قدیم مصری شاہی خاندان کے لیے تدفین کی جگہ اور دیوتا اوسیرس کی عبادت کے لیے ایک زیارت گاہ تھی۔

سیاحت کی بحالی

epa

،تصویر کا ذریعہEPA

حالیہ مہینوں میں مصری حکومت نے باقاعدگی سے آثار قدیمہ کی نئی دریافتوں کی نمائش کا سلسلہ جاری رکھا ہے جن کے بارے میں کچھ افراد کا خیال ہے کہ ان کی کوئی سائنسی یا تاریخی اہمیت نہیں بلکہ انھیں میڈیا کے ذریعے سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔

اس شمال مشرقی افریقی ملک کی جی ڈی پی کا 10 فیصد سیاحت پر منحصر ہے، ایک ایسی صنعت جس سے 20 لاکھ افراد کا روزگار جڑا ہے۔

ملک کے معاشی بحران نے حکام کو 2028 تک تقریباً 30 ملین سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے نئی حکمت عملی تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے، کووڈ کی وبا سے قبل یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد 13 ملین تھی۔

تاہم اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت آثار قدیمہ کے مقامات اور عجائب گھروں کی حالت کو بہتر رکھنے میں ناکام رہی ہے جو کہ خستہ حالی کا شکار ہیں۔