کوسٹاریکا کے چڑیا گھر میں مگرمچھ نے خود کو ہی حاملہ کر لیا

مگر مچھ

،تصویر کا ذریعہJOE WASILEWSKI

،تصویر کا کیپشنمحققین کے مطابق شاید مگر مچھوں میں ’ورجن برتھس‘ کافی ہوتی ہوں جن کا اب جا کر پتہ چلا ہے
  • مصنف, پلب گوش
  • عہدہ, سائنس کے نامہ نگار

کوسٹاریکا کے ایک چڑیا گھر میں ایک ایسا کیس سامنے آیا ہے جس میں مگرمچھ نے خود کو حاملہ کر لیا ہے۔

اس نے ایک ایسا فیٹس (جنین) پیدا کیا جو جینیاتی طور پر 99.9 فیصد اسی سے ہی ملتا ہے۔

نام نہاد ’ورجن برتھس‘ کا رجحان پرندوں، مچھلیوں اور کچھ رینگنے والے جانوروں کی انواع میں پایا جاتا ہے لیکن مگرمچھ میں ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

سائنس دان کہتے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ خصلت انھیں ارتقائی طور پر اپنے آباؤ اجداد یعنی ڈائنوسارز سے وراثت میں ملی ہو کیونکہ ڈائنو سار بھی خود تولید کے قابل ہو سکتے تھے۔

جس انڈے میں فیٹس ملا اسے جنوری 2018 میں پارک ریپٹیلانیا میں ایک 18 سالہ مادہ امریکی مگرمچھ نے دیا تھا۔ اس کے اندر جنین مکمل طور پر بن چکا تھا لیکن مردہ تھا۔

انڈہ دینے والی اس مادہ مگرمچھ کو دو سال کی عمر میں یہاں لایا گیا تھا اور اسے ساری زندگی دوسرے مگرمچھوں سے الگ رکھا گیا۔

یہی وجہ تھی کہ جب پارک کی سائنسی ٹیم کو اس کے متعلق پتہ چلا تو انھوں نے ورجینیا پولی ٹیکنک کی ایک امریکی ٹیم سے رابطہ کیا، جو ورجن برتھس کے متعلق علم رکھتی ہے۔ اس طریقے کو سائنسی طور پر پارتھینوجینیسس کہا جاتا ہے۔

crocodile

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ماہرین نے جنین کا تجزیہ کیا جس سے انھیں معلوم ہوا کہ یہ جینیاتی طور پر 99.9 فیصد سے زیادہ اپنی ماں سے مماثلت رکھتا ہے، جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس کا کوئی باپ نہیں تھا۔

رائل سوسائٹی کے جریدے بائیولوجی لیٹرز میں محققین لکھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ مگرمچھوں میں ورجن برتھس زیادہ عام ہوں اور اب تک اس پر کسی کا دھیان ہی نہیں گیا ہو۔

تحقیقی مقالے میں سائنسدانوں نے کہا کہ ’یہ غیر معمولی بات نہیں ہے کہ رینگنے والے جانور جنھیں دوسرے مگر مچھوں سے جدا رکھا گیا ہو وہ پنجروں میں انڈے دیں۔ ان انڈوں کو عام طور پر خراب تصور کیا جاتا ہے اور انھیں ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ نتائج تجویز کرتے ہیں کہ مجب نر (مگر مچھ) غیر حاضر ہو تو انڈوں کی ممکنہ قابل عملیت کے لیے (ان کا) جائزہ لیا جانا چاہیے۔‘

’اس کے علاوہ جب ورجن برتھس ممکنہ ساتھیوں کی موجودگی میں ہو سکتی ہے، تو ایسی مثالوں پر دھیان نہیں دیا جاتا جب نر (مگر مچھوں) کے ساتھ رہنے والی مادہ (مگر مچھوں) میں ایسا تولیدی عمل ہوتا ہے۔‘

یہ واضح نہیں ہے کہ مختلف سپیشیز میں پارتھینوجینیسس کیوں ہوتا ہے، لیکن سائنسی کتابوں میں اس قسم کے واقعات کافی زیادہ لکھے جا رہے ہیں، شاید اس لیے کہ محققین اب اس کی تلاش کر رہے ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ یہ ان سپیشیز میں ہوتا ہے جن کی تعداد کم ہوتی ہے، اور وہ معدوم ہونے کے دہانے پر ہوتی ہیں۔

سائنسدان لکھتے ہیں کہ ’یہ نیا ثبوت مگرمچھوں کے معدوم ہونے والے رشتہ داروں کی ممکنہ تولیدی صلاحیتوں کے بارے میں دلکش بصیرت پیش کرتا ہے، جن میں سب سے مشہور ڈائنو سار ہے۔