علی امین گنڈاپور کا رشوت سے متعلق متنازع بیان: ’اگر لوگوں نے خود ہی سزائیں دینی ہیں تو پھر آپ کو ووٹ کیوں دیا‘

علی امین گنڈا پور

،تصویر کا ذریعہPTI KP TWITTER

  • مصنف, عزیز اللہ خان
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام

’میں پورے صوبے سے کہتا ہوں، آپ سے بھی کہتا ہوں، مجھے کوئی ایسا نہ کہے کہ فلاں رشوت مانگتا ہے۔ سر پھاڑ دو، اینٹ مار دو اور پھر مجھے بتاؤ کہ میں نے رشوت لینے والے کا سر پھاڑ دیا۔ اگر کوئی کہے کہ کیوں مارا تو کہو کہ اسے جہنم کی آگ سے بچایا ہے۔‘

یہ وہ الفاظ ہیں جو گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب سید علیاں کے مقام پر لوگوں سے خطاب میں کہے۔

سیاسی پارٹیوں کے قائدین کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی ہو یا سخت قسم کے موقف سے لوگوں کے جذبات ابھارنا مقصد ہو لیکن بعض اوقات ایسے بیان موضوع بحث بن جاتے ہیں اور ایسا ہی کچھ علی امین گنڈا پور کے خطاب کے بعد بھی ہوا۔

علی امین گنڈا پور کا حالیہ بیان اگرچے معاشرے سے ایک سماجی برائی کے خاتمے سے متعلق ہے لیکن سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر صارفین پوچھ رہے ہیں کہ ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ کیسے لوگوں سے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا کہہ سکتا ہے۔

’اس بیان کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کرپشن برداشت نہیں کرے گی‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور خیبرپختونخوا کے سابق وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کے خلاف ان کی جماعت کا مؤقف واضح ہے اور علی امین گنڈا پور نے حلف لینے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں بھی کہا تھا کہ کرپشن کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ جہاں تک اس بیان کی بات ہے تو اس کا مقصد ان لوگوں میں خوف پیدا کرنا ہے جو اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں تاکہ رشوت اور کرپشن کی روک تھام ہو سکے اور حق دار کو اس کا حق ملے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ کوئی واقعی جا کر کسی کو مار دے۔

’اس بیان کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ہرگز کرپشن برداشت نہیں کرے گی۔‘

شوکت یوسفزئی نے کہا کہ صوبے میں ایک سیل بنایا جا رہا ہے جس میں کرپشن اور رشوت لینے والے افراد کے خلاف شکایات درج کرائی جائیں گی اور پھر اس پر فوری کارروائی ہو گی۔

بی بی سی نے اس بارے میں صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف سے رابطے کی کوشش بھی کی لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی۔

علی امین گنڈاپور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی بار علی امین گنڈا پور کے کئی متنازع بیانات سامنے آ چکے ہیں۔

سنہ 2018 کے انتخابات کے بعد مرکزی سطح پر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد علی امین کو اہم ذمہ داریاں دی گئی تھیں جن میں کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی انتخابی مہم چلانے کی ذمہ داری تھی۔

کشمیر میں انتخابات کے دوران علی امین کا کردار خاصا متنازع رہا تھا اور ان کی جانب سے اس دوران تقریروں میں مریم نواز سمیت دیگر سیاسی حریفوں کے خلاف متنازعہ بیانات دیے تھے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کے ان بیانات اور فائرنگ کے ایک واقعے کے بعد انھیں کشمیر سے نکلنے کا کہا گیا تھا۔

اس کے علاوہ پی ٹی آئی دور میں علی امین گنڈا پور نے عوام کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیشِ نظر ’چائے میں چینی کم ڈالنے اور روٹی کم کھانے‘ کا مشورہ دیا تھا جس پر خاصی تنقید ہوئی تھی۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام

سوشل میڈیا پر ردعمل

سوشل میڈیا پر علی امین گنڈا پور کے حالیہ بیان کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اور صارفین کا کہنا ہے کہ ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ کیسے اتنا غیر ذمہ دارانہ بیان دے سکتا ہے ۔

ایکس پر خالد محمد نے لکھا کہ ’عقل سے کام لیں۔ ایسے بیانات دینا غلط ہے اور ایسا کرنا بھی۔ علی امین کو کہنا چاہیے کہ جو رشوت مانگے اس کی شکایت قانون کے مطابق درج کرائیں اور پھر حکومت کو چاہیے کہ اس پر فوراً ایکشن لے۔‘

عمیر علی نامی ایک صارف نے لکھا کہ اگر لوگوں نے خود ہی اس طرح سزائیں دینی ہیں تو پھر لوگوں نے آپ کو ووٹ کیوں دیا۔

طلحہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’معذرت کے ساتھ لیکن قانون اپنا راستہ خود اختیار کرتا ہے نہ کہ شہری خود قانون اپنے ہاتھ میں لیں۔‘