شکاری جس نے امریکہ کے قومی پرندے سنہری عقاب سمیت 3600 پرندے مار ڈالے

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, میکس میٹزا
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

اکثر معدومی کے شکار جانوروں اور پرندوں سے متعلق خبریں ہماری نظر سے گُزرتی ہیں کہ ان کی کھال سے مختلف مصنوعات کی تیاری، ادویات میں ان کا استعمال یا ان کے جسم یا کھال میں بھوسہ بھر کر انھیں گھروں میں سجاوٹ کے لیے فروخت کیا جاتا ہے۔

مگر حال ہی میں امریکہ سے ایک خبر سامنے آئی ہے کہ جہاں ایک 48 سالہ شخص ٹریوس جان برینسن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے نہ صرف سینکڑوں سنہرے عقابوں کا غیر قانونی شکار کیا بلکہ وہ ان کی سمگلنگ میں بھی ملوث رہے ہیں۔

ٹریوس جان برینسن کئی سالوں تک پرندوں کا غیر قانونی شکار کرتے رہے جس کے بعد وہ ان کے پروں اور جسم کے مختلف حصوں کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کے کاروبار سے بھی منسلک رہے۔

ایک خریدار کو بھیجے گئے ٹیکسٹ میسجز میں ٹریوس جان نے ’جُرم کا ارتکاب‘ کرنے اور اس میں اور لوگوں کو شامل کرنے کے بارے میں فخر کا اظہار کیا۔

31 جولائی کو امریکہ کی وفاقی عدالت میں انھیں پانچ سال قید کی سزا سُنائی گئی تھی۔

دُنیا کے دیگر مُمالک کی طرح امریکہ میں بھی معدومی کے شکار پرندوں اور جانوروں کے شکار پر پابندی کا قانون موجود ہے جس کی خلاف ورزی کا اعتراف بدھ کے روز ٹریوس جان برینسن نے کیا۔

ٹریوس جان برینسن کو تقریباً ڈھائی لاکھ ڈالر (ایک لاکھ 95 ہزار پاؤنڈ) جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔

2015 سے 2021 تک برانسن نے اس غیر قانونی شکار کے لیے ریاست واشنگٹن میں واقع اپنے گھر سے مغربی مونٹانا کا سفر کیا۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھی سائمن پال کے ساتھ مل کر فلیٹ ہیڈ انڈین ریزرویشن اور دیگر مقامات پر تقریبا 3600 پرندوں کا شکار کیا۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ٹریوس جان برینسن کے 42 سالہ ساتھی سائمن پال بھی انھیں الزامات میں مطلوب ہیں۔

برینسن کو 13 مارچ 2021 کو ایک بس سٹاپ پر اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب پولیس کو ان کی گاڑی سے سنہری عقاب کے پنجے اور پر ملے تھے۔

سنہری عقاب امریکہ کا قومی پرندہ ہے اور اس کے عکس کرنسی نوٹ اور سرکاری مہر دونوں پر موجود ہوتے ہیں۔

یہ 20 ویں صدی کے وسط میں شکار، رہائش گاہ کے نہ ہونے اور ڈی ڈی ٹی کے استعمال کی وجہ سے خطرے میں تھے، (ڈی ڈی ٹی ایک جراثیم کش دوا ہے جو پرندوں سے اُن کی انڈے دینے کی صلاحیت چھین لیتی ہے)۔ ڈی ڈی ٹی نامی اس دوا پر سنہ 1972 میں پابندی عائد کردی گئی تھی۔

یو ایس فش اینڈ وائلڈ لائف سروس کے مطابق 1963 میں گنجے عقاب کے صرف 417 گھونسلے موجود تھے۔

ایسے میں ان نایاب سمجھے جانے والے عقابوں کے تحفظ کی مسلسل کوششوں کے بعد اب یہ پرندہ خطرے سے باہر ہے اور اب اس کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا ہے جس کی وجہ سے اب اسے معدومی کا شکار نہیں سمجھا جاتا تاہم امریکہ کے لیے یہ اب بھی اہمیت کا حامل پرندہ ہے۔