آئی ٹی قانون میں متنازع ترمیم: انڈین سپریم کورٹ نے بی جے پی حکومت کو ’فیکٹ چیکنگ یونٹ‘ قائم کرنے سے روک دیا

انڈیا، فیکٹ چیکنگ، سپریم کورٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنانڈین سپریم کورٹ کی عمارت کا ایک منظر
  • مصنف, نیاز فارقی
  • عہدہ, بی بی سی اردو، نئی دہلی

انڈین سپریم کورٹ نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کی جانب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) ایکٹ 2021 میں کی گئی ایک متنازع ترمیم کے ذریعے نکالے گئے نوٹیفکیشن کو معطل کردیا ہے جس کے تحت ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز حکومت کی طرف سے ’جعلی‘ یا ’گمراہ کُن‘ مواد کو سوشل میڈیا سے حذف کرنے کے پابند تھے۔

انڈیا کے انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز، 2021 میں گذشتہ برس ایک ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت 20 مارچ کو حکومت نے اپنے زیرِ انتظام پریس انفامیشن بیورو (پی آئی بی) میں ایک ’فیکٹ چیکنگ یونٹ‘ قائم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

انڈین حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ فیکٹ چیکنگ یونٹ ’جعلی‘ یا ’گمراہ کُن‘ خبروں کی روک تھام کے لیے کام کرے گا جس سے مرکزی حکومت کے امور پر فرق پڑتا ہے۔

جمعرات کو انڈیا کی سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن معطل کردیا کیونکہ یہ معاملہ ابھی بمبئی ہائی کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے۔

واضح رہے حالیہ نوٹیفکیشن کے اجرا سے قبل گذشتہ برس حکومت کی جانب سے آئی ٹی رولز میں کی گئی ترمیم کو کامیڈین کُنال کامرا، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا اور دیگر تنظیموں کی طرف سے چیلنج کردیا گیا تھا۔

ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز، پریس اور انفرادی آزادی کے لیے کام کرنے والے اداروں نے حکومت کے فیکٹ چیک یونٹ کے قیام کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک میں آزادی اظہار رائے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

سپریم کورٹ میں اس معاملے پر سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے وکلا کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس پریس انفارمیشن بیورو نامی ایک ادارہ موجود ہے جو کہ عوام کے سامنے حکومت کا مؤقف پیش کرتا ہے، فیکٹ چیکنگ یونٹ کو ’صحیح‘ یا ’غلط‘ کا فیصلہ دینے کی طاقت دینے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کا مؤقف ہی واحد قابلِ قبول مؤقف ہوگا۔

نوٹیفکیشن کی مخالفت کرنے والے وکلا کا مزید کہنا تھا کہ فیکٹ چیکنگ یونٹ حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی معلومات کو جعلی یا گمراہ کُن قرار دے سکے گا۔

انڈیا میں ایک ایسا ہی یونٹ 2019 میں بھی قائم کیا گیا تھا اور وہ فعال بھی ہے لیکن اس کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے کسی بھی قسم کا مواد ہٹانے کا حکم جاری کر سکے۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام

ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ’انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن‘ نامی تنظیم نے اس حوالے سے جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ ترمیم ’بنیادی طور پر تقریر اور اظہار کے بنیادی حق، خاص طور پر نیوز پبلشرز، صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کی سرگرمیوں پر منفی اثرات ڈالے گی۔‘

اس تنظیم کی جانب سے پارلیمانی انتخابات سے چند ہفتے قبل اس نوٹیفکیشن کو متعارف کروانے پر بھی سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ یہ ’انٹرنیٹ پر اظہار رائے کو بڑے پیمانے پر متاثر کر سکتا ہے کیونکہ اسے سینسرشپ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر اختلاف رائے ہونے کہ صورت میں۔‘

انڈیا میں شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے نامور وکیل اپار گپتا نے بھی اس قدم کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی بیان‘ خود بخود ’جعلی یا غلط یا گمراہ کن‘ نہیں بن جاتا ہے اور ’جعلی یا غلط یا گمراہ کن‘ جیسے الفاظ کی تمام اقسام آئین کی جانب سے متعین کردہ ’پابندیوں‘ کے اندر فٹ نہیں ہوتیں، اور آئی ٹی رولز میں کی گئی ترمیم حکومت کو سینسرشپ کرنے کی غیر آئینی طاقت دیتی ہے۔‘

اس ترمیم کو عدالت میں چیلنج کرتے وقت اپنی درخواست میں کامیڈین کُنال کامرا نے دلیل دی تھی کہ ’جعلی اور جھوٹی خبر‘ کیا ہے اس کی شناخت کا عمل حکومت پر نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ اس سے حکومت اپنی ہی کارکردگی کی خود جج بن جائے گی۔

ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کی پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کے ’فیکٹ چیکنگ یونٹ‘ ’پبلشرز کی اشاعت کی آزادی‘ کو سلب کرنے کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔