پاکستانی عائشہ جسے انڈین شہری کے دل نے نئی زندگی دی: ’سرجری کے پیسے نہیں تھے، ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ آ جائیں، ہم سنبھال لیں گے‘

عائشہ
،تصویر کا کیپشنعائشہ صرف سات سال کی تھیں جب یہ علم ہوا کہ ان کے دل کا 25 فیصد حصہ ناکارہ ہو چکا ہے
  • مصنف, سردا وی
  • عہدہ, بی بی سی تامل

’ہم نے پاکستان میں ایک کیمپین کی لیکن اتنی زیادہ رقم کا بندوبست نہیں ہو پا رہا تھا لیکن جو یہاں پر ڈاکٹروں نے ہمارے لیے کیا وہ ناقابل یقین تھا۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں بتا سکوں کہ میں کیسا محسوس کر رہی ہوں۔‘

پاکستان کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والی صنوبر رشید انڈیا کے چنئی شہر میں اپنی 19 سالہ بیٹی عائشہ کے دل کے ٹرانسپلانٹ کے بعد ایم جی ایم ہسپتال کی 11ویں منزل پر موجود تھیں جب انھوں نے یہ جملہ کہا۔ ان کے چہرے پر اطمینان اور خوشی کے جذبات واضح تھے۔

وہ 10 ماہ قبل ہی اس امید سے انڈیا آئی تھیں کہ ان کی بیٹی کے دل کا ٹرانسپلانٹ ممکن ہو سکے گا۔

عائشہ صرف سات سال کی تھیں جب یہ علم ہوا کہ ان کے دل کا 25 فیصد حصہ ناکارہ ہو چکا ہے۔ رفتہ رفتہ عائشہ کا دل معمول کے مطابق کام کرنا چھوڑ رہا تھا۔ 2019 میں پہلی بار صنوبر اور عائشہ انڈیا کے شہر چنئی میں ایک ماہر امراض قلب سے ملے۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد عائشہ کو دل کا دورہ پڑا۔

اس صورت حال میں عائشہ کے دل میں ایک مصنوعی آلہ لگایا گیا تاہم کراچی لوٹنے کے دو سال بعد ہی انھیں ایک انفیکشن ہوا جس کے بعد ان کے دل کی دائیں سمت نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ تب ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ اب ٹرانسپلانٹ ہی واحد حل ہے۔

صنوبر کا کہنا ہے کہ ’یہ سرجری پاکستان میں ممکن نہیں تھی۔ ہمیں ڈاکٹروں نے بتایا کہ انڈیا یا کینیڈا جانا ہو گا۔ پھر ہم نے کچھ جانچ پڑتال کی تو پتہ چلا کہ انڈیا بہتر رہے گا۔‘

صنوبر نے چنئی میں ایک ڈاکٹر سے رابطہ کیا لیکن ان کے پاس اس سرجری اور علاج کے لیے درکار پیسے نہیں تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ آ جائیں، باقی ہم سنبھال لیں گے۔‘

عائشہ

ڈاکٹر بالاکرشنن ایم جی ایم ہسپتال میں دل کے ٹرانسپلانٹ یونٹ کے ڈائریکٹر ہیں جو 2019 سے عائشہ کا علاج کر رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلی بار عائشہ یہاں آئی اور اسے دل کا دورہ پڑا تو ہم نے ایکمو نامی آلہ نصب کیا تھا۔ ہم نے خون پمپ کرنے والا ایک مصنوعی آلہ بھی لگایا تھا جس کے بعد ان کو گھر واپس بھیج دیا کیوںکہ ان کی جسمانی صحت بہتر ہو چکی تھی۔ لیکن پاکستان میں مصنوعی ہارٹ پمپ کی منایٹنگ کے لیے سہولیات موجود نہیں ہیں اور اسی وجہ سے خون کی ایک نالی میں لیکج ہو گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عائشہ بہت بری حالت میں یہاں آئی تھی اور کئی دن تک وہ بیہوش رہیں۔

ڈاکٹر بالاکرشنن کے مطابق چونکہ وہ عائشہ کا کافی عرصے سے علاج کرتے رہے ہیں تو انھوں نے کوشش کی کہ ہر ممکن مدد کر سکیں۔ ان کی کوششوں سے ہی انڈیا کے شہر دلی کے ایک خاندان نے 69 سالہ شخص کا دل عائشہ کو عطیہ کرنے کی حامی بھری۔

انڈیا

،تصویر کا ذریعہANI

،تصویر کا کیپشنڈاکٹر بالاکرشنن ایم جی ایم ہسپتال میں دل کے ٹرانسپلانٹ یونٹ کے ڈائریکٹر ہیں جو 2019 سے عائشہ کا علاج کر رہے ہیں۔

سریش راؤ ایم جی ایم ہسپتال میں جائنٹ ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’انڈیا میں ٹرانسپلانٹ پالیسی کے مطابق کسی بھی جسمانی عضو کے عطیے کے لیے پہلی ترجیح مقامی شہری کو ملتی ہے اسی لیے عائشہ کو 10 ماہ انتظار کرنا پڑا۔ اس موقع پر عائشہ کو یہ دل اس لیے مل گیا کہ اس کا کوئی اور امیدوار نہیں تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر یہ دل نہیں ملتا تو شاید عائشہ آج زندہ نہ ہوتیں۔‘

ڈاکٹر سریش نے بتایا کہ ’جب ہمیں پتہ چلا کہ دل کا عطیہ تیار ہے تو ہم نے عائشہ کو سرجری کے لیے تیار کیا۔ دلی سے پانچ گھنٹے میں یہ دل یہاں پہنچا اور جب ایک دل پانچ گھنٹے تک دھڑکنا بند کر دیتا ہے تو کسی دوسرے انسان کے جسم میں اسے لگانے سے پہلے اسے دوبارہ زندہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر بالاکرشنن نے اس سرجری اور علاج کے لیے درکار وسائل پر بھی روشنی ڈالی۔

انھوں نے بتایا کہ ’عائشہ کے اہلخانہ کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اور یہ علاج ایشویریئم نامی فلاحی تنظیم کی مدد سے ممکن ہوا جس کے ساتھ ساتھ کچھ حصہ میں نے ڈالا اور کچھ حصہ ایم جی ایم ہسپتال میں ٹرانسپلانٹ کروانے والے افراد نے۔‘

ایشویریئم تنظیم اب تک 12 ہزار مریضوں کے علاح میں مدد کر چکی ہے جن میں 175 دل کے ٹرانسپلاںٹ شامل ہیں۔

بی بی سی اردو کے لیے صحافی زبیر خان سے بات کرتے ہوئے سرجن ڈاکٹر کے آر بالا کریشنن نے اس ٹرانسپلانٹ کی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ٹرانسپلانٹ آسان نہیں تھا کیونکہ عائشہ کے دل کے پاس انفیکشن تھا اور بھی بہت سے مسائل تھے۔ یہ ایک لمبا اور نازک ٹرانسپلانٹ تھا۔ عائشہ بچپن سے میرے پاس آرہی تھی اور میں اور میری ساری ٹیم چاہتی تھی کہ عائشہ ایک صحت مند زندگی گزارے۔‘

ڈاکٹر کریشنن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے عائشہ کا سینہ اپنی پوری تسلی کے بعد بند کیا تھا کیونکہ ہم دیکھنا چاہ رہے تھے کہ کیا نتائج نکلتے ہیں اور کیا مزید کسی سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے یا نہیں۔ لہذا اس دوران صرف ٹرانسپلانٹ کرنے والی ٹیم ہی نہیں بلکہ آئی سی یو کا بھی بہت بڑا کردار تھا۔ ایسے ٹرانسپلانٹ میں اگر آئی سی یو مناسب، جدید ترین اور ماہرین پر مشتمل نہ ہو تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں مگر ہماری آئی سی یو ٹیم اور ان کے سربراہ ڈاکٹر سریش نے شاندار طریقے سے عائشہ کا خیال رکھا تھا۔

ڈاکٹر سریش کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت حساس کیس تھا۔ دل ہی سے خون پورے جسم میں گردش کرتا ہے۔ اس کے خون کی روانی کو برقرار رکھنا بھی لازمی تھا۔ عائشہ کی قوت مزاحمت بہت کم ہوچکی تھی۔ وہ بہت کمزور تھی۔ اس میں خدشہ تھا کہ کئی کہیں گردے اور پھر دوسرے اعضا میں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوجائے۔

ڈاکٹر کے آر بالا کریشن کا مزید کہنا تھا کہ اب عائشہ کو ہر کچھ عرصے بعد معائنہ کی ضرورت ہے۔ ہماری کوشش ہوگئی کہ اس کو یہ معائنہ اور مشورہ ملتا رہے اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس بات کو بھی مکن بنایا جاسکتا ہے کہ وہ انڈیا آئیں۔

AYESHA RASHEED

،تصویر کا ذریعہAYESHA RASHEED

عائشہ نے ڈاکٹروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بی بی سی تامل کو بتایا کہ ’میں سرجری کے بعد بہت بہتر محسوس کر رہی ہوں۔‘

’ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ میں دو ماہ میں گھر واپس جا سکتی ہوں۔ میں واپس جا کر اپنی پڑھائی جاری رکھنا چاہتی ہوں اور مستقبل میں فیشن ڈیزائنر بننا چاہتی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’انڈیا میں رہ کر ایسا نہیں لگا کہ میں پاکستان سے باہر ہوں۔ سب کچھ ایک جیسا ہے، کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔‘

جب ان سے سوال ہوا کہ کیا انھوں نے چنئی دیکھا تو انھوں نے کہا کہ ’میرا زیادہ وقت تو ہسپتال میں ہی گزر گیا کیوں کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ مجھے جب بھی موقع ملا تو میں ساحل پر ضرور گئی۔‘