واٹس ایپ تک کیسے پابندیوں کے باوجود کروڑوں لوگ خفیہ طریقوں سے رسائی حاصل کر رہے ہیں

whatsapp

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, جو ٹائڈی
  • عہدہ, سائبر نامہ نگار

واٹس ایپ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ پابندیوں کے باوجود اس ایپ تک خفیہ طریقے سے رسائی حاصل کرنے کے لیے تکنیکی حل تلاش کر لیتے ہیں۔

ول کیتھرٹ نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو حیرانی ہو گی کہ کتنے لوگوں نے ایسے حل نکال لیے ہیں۔‘

متعدد مغربی ایپس کی طرح واٹس ایپ پر ایران، شمالی کوریا اور شام میں پابندی عائد ہے۔ گذشتہ ماہ چین بھی صارفین پر واٹس ایپ تک رسائی حاصل کرنے کی پابندی عائد کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا۔

دیگر ممالک، بشمول قطر، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات، میں واٹس ایپ کے چند فیچرز پر پابندی ہے جیسا کہ وائس کالز۔

لیکن واٹس ایپ دیکھ سکتا ہے کہ اس کے صارفین کہاں کہاں پر موجود ہیں جس کی وجہ صارفین کے رجسٹرڈ نمبر ہوتے ہیں۔

ول کیتھرٹ نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ لوگ واٹس ایپ استعمال کر رہے ہیں اور ہم جب ایسے ممالک کو دیکھتے ہیں جہاں پابندی عائد ہے تو ہم جان سکتے ہیں کہ کروڑوں لوگ ابھی بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔‘

’کچھ روکو‘

چین نے حال ہی میں ایپل کمپنی کو حکم دیا ہے کہ چینی آئی فون صارفین کو ایپل سٹور سے واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے سے روکا جائے۔ ول کیتھرٹ اس حکمنامے کو ’بدقسمت‘ قرار دیتے ہیں اگرچہ کہ چین کا شمار کبھی بھی واٹس ایپ کی بڑی مارکیٹ کے طور پر نہیں ہوا۔

ول کے مطابق ’یہ ایپل کا اپنا فیصلہ تھا۔ میرا مطلب ہے کہ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں وہ خود داخل ہوئے تاکہ کسی چیز کو روک سکیں۔‘

تاہم اینڈروئڈ صارفین اب بھی چین میں واٹس ایپ کا استعمال کر سکتے ہیں۔ ول کے مطابق وی پی این اور واٹس ایپ کی پراکسی سروس کی وجہ سے، جو جون میں شروع کی گئی، اب یہ ممکن ہے کہ ان کی ایپ تک رسائی حاصل کی جا سکے۔

واٹس ایپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشندنیا میں واٹس ایپ کے تقریبا دو ارب صارفین ہیں

’مشکوک مجرم‘

واٹس ایپ اور سگنل، جنھیں محفوظ ایپس سمجھا جاتا ہے کیونکہ اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کے تحت پیغام بھیجنے والا اور وصول کرنے والا ہی اسے پڑھ اور دیکھ سکتا ہے، کے علاوہ چین نے ٹیلی گرام پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ مائیکرو بلاگنگ ایپ تھریڈز کو ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا جا چکا ہے۔

ول کیتھرٹ ورلڈ سروس پریزینٹس کی انٹرنیٹ آزادی سے متعلق تقریب میں بی بی سی سے بات کر رہے تھے۔

ول کیتھرٹ ہمیشہ سے مغربی ٹیکنالوجی کی کامیاب طریقے سے دنیا کے دیگر ممالک کو برآمدگی کو لبرل جمہوریت کی اقدار کو فروغ دینے سے مترادف قرار دیتے رہے ہیں۔ تاہم وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ’یہ طاقت اب کم ہوتی جا رہی ہے جس کے ساتھ ساتھ آزاد اور کھلے انٹرنیٹ کی مغربی اقدار بھی گھٹ رہے ہیں۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یقیناً یہ خطرے میں ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ ایک جدوجہد ہے۔‘

’ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم دنیا بھر میں لوگوں کو ایسی محفوظ نجی رابطہ کاری کی سہولت فراہم کرتے ہیں جو آمرانہ حکومتوں کی سرویلنس یا جاسوسی سے آزاد ہے بلکہ قدغنوں سے بھی اور بصور دیگر ان لوگوں کے پاس ایسا کرنے کا کوئی طریقہ نہ ہوتا۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک جاری خطرہ ہے اور ایک مسلسل جنگ ہے۔‘

قومی سلامتی وجوہات کی بنا پر چینی ٹک ٹاک ایپ پر ممکنہ پابندی کے ساتھ امریکہ اس جنگ میں شامل ہو چکا ہے۔

ول کیتھرٹ نے برطانیہ سمیت دنیا میں متعدد حکومتوں کی جانب سے ایسی کوششوں پر بھی خدشات کا اظہار کیا جن کے تحت واٹس ایپ کو محفوظ پیغامات کی سروس پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے اور پولیس کو اجازت دی جا سکتی ہے کہ مشکوک مجرمان کے پیغامات پڑھے جا سکیں۔

ول نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’میرے خیال میں یہ بحث ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ لوگ اپنی پرائویسی کے بارے میں بہت فکر مند ہیں اور اس بارے میں بھی کہ محفوظ پیغامات کی سروس کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے۔‘

’اور یہ ایک وجہ ہے کہ ہم نے اس کے بارے میں اتنی زیادہ بات کی ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ اس کا مطلب کیا ہے اور داؤ پر کیا لگا ہوا ہے۔‘