شب بھر تیری یادوں کا نیا زخم ہے کھایا
دل نے میری بربادی کا یوں جشن منایا
جس شام بھی محبوب میرے یاد تو آیا
پھر صبح تلک آنکھ سے اشکوں کو بہایا
سینے میں ہے ہر شخص نے نفرت کو دبایا
یوں میں نے محبت کا ثمر دنیا سے پایا
اس شوخ نے مجھ کو نہ کبھی پاس بلایا
ظالم کی مگر یاد نے ہر وقت ستایا
احساس محبت سے یہ دنیا تو ہے خالی
سو قصہ محبت کا ہے تاروں کو سنایا
دھرتی مجھے جنت کا کوئ باغ لگے ہے
جب سے ہے تجھے جان چمن دل میں بسایا
کہنے لگی مردے کو نہیں مارتا کوئی
جب زخم جگر میں نے اجل کو ہے دکھایا
سسی کی طرح سوئ تھی جب درد نے چھیڑا
یادوں نے تیری آن کے پھر مجھ کو جگایا
چلتی ہیں زبیر ان سے بچھڑ کے بھی یہ سانسیں
ہاں حوصلہ دل نے بھی یہ کیا خوب دکھایا