قسمت کی لکیروں سے یوں پتھر نہیں جاتے
ہاتھوں کو جلانے سے مقدر نہیں جاتے
مدت سے اداسی نے بھی ڈالا ہے پڑاؤ
آنگن سے بھی اس درد کے لشکر نہیں جاتے
ٹوٹے ہوں جو پھینکے ہوئے پتھر سے کسی کے
ان کانچ کے ٹکڑوں کے کبھی ڈر نہیں جاتے
اے وقت ذراٹھہر کہ میں لمحے سنبھالوں
نظروں میں اتر آئیں تو منظر نہیں جاتے
ہر روز ہی دیتے ہو چلے جانے کی دھمکی
تم جاتے ہو تو جاؤ کہ ہم مر نہیں جاتے
جس در پہ دیا بیٹھی ہوں حسرت کی بلائیں
خواہش کے لٹیرے وہاں اندر نہیں جاتے