میرے دیس کے لوگ بھی عجب فقیر ہیں
سراپا الفت ہیں امن کی تصویر
بے لگام خواہشوں نے پکڑ رکھا ہے ورنہ
موج بے کراں ہیں آپ اپنی تقدیر ہیں
نفرتوں میں گھرے کچھ شفیق لوگ ہیں
محبتوں کا سمندر ہیں اقبال کی تعبیر ہیں
جسے آج تک نہ تسخیر کرسکاکوئی
وہ آہنی دیوارہیں فولادی شمشیرہیں
کئی طوفان بھی انکے قدم ڈگمگا نہ سکے
موج بے کراں ہیں آپ اپنی تقدیر ہیں
نفرتوں میں گھرے کچھ شفیق لوگ ہیں
محبتوں کا سمندر ہیں اقبال کی تعبیر ہیں
جسے آج تک نہ تسخیر کرسکاکوئی
وہ آہنی دیوارہیں فولادی شمشیرہیں
جراتوں کا نشان ہیں زخموں کی تاثیرہیں
جن کی داستان حیات بھی اک خونی تحریر ہے
وہی پیکر شجاعت ہیں وہی میرا عنوان تقریر ہیں