وہ زلفِ گرہ گیر بناتے ہوئے رویا
"تصویر میں زنجیر بناتے ہوئے رویا"
اُس باپ کی تکلیف سمجھ سکتا ہے کوئی؟
جو زہر کو اکسیر بناتے ہوئے رویا
پہنچا تھا جو باہر سے جنازے پہ بمشکل
وہ باپ کی تصویر بناتے ہوئے رویا
رکھا نہ بھرم بارگہِ عشق کا اُس نے
جو درد کی جاگیر بناتے ہوئے رویا
مژگاں کو کِیا تیز دمِ اشکِ ریا سے
یوں تِیر کو شہتیر بناتے ہوئے رویا
(ایک طرحی مشاعرے کے لیے کہی تازہ غزل۔ واوین میں مصرع جناب عبدالباسط صائم کا ہے۔)