کیسی تقصیریں ہوئی ہیں، کیسی تعزیریں ہوئیں
عام ہر سمت مرے عشق کی تفسیریں ہوئیں
مجھ سے ملنے کے لیے اب تو چلے آؤ صنم
میرے پاؤں میں تو حالات کی زنجیریں ہوئیں
جب سے دیکھا ہے تجھے میں نے سرِ راہ گزر
بس اسی دن سے مرے حُسن کی توقیریں ہوئیں
حاکمِ وقت کبھی تو نے ادھر دیکھا ہے
بےردا خطہ ءِ کشمیر میں ہمشیریں ہوئیں
میں نے غربت میں بھی سیکھا ہے محبت کرنا
تیرے قبضے میں تو نفرت کی یہ جاگیریں ہوئیں
تو نے ہر خط میں مجھے اپنا لکھا تھا شاعر
کیسے محفوظ مرے پاس وہ تحریریں ہوئیں
ہم کو مجبوریءِ دوراں نہ جتا اے وشمہ
اور بھی ترکِ ملاقات کی تدبیریں ہوئیں