خود کو سمجھا رکھا ہے
تجھ کو بھلا رکھا ہے
موسم ہے برسات کا تو کیا ہوا
دامن اپنا بچا رکھا ہے
بے ترتیب ہیں سانسیں تو کیا ہوا
دل کو اپنے سنبھال رکھا ہے
حسرتیں ہیں بہت تو کیا ہوا
ہاتھ اپنا دعا کے لیے اٹھا رکھا ہے
بس گئے ہو دور کہیں تو کیا ہوا
مورت کو تیری سینے میں سجا رکھا ہے
خان اسیرِ محبت ہیں تو کیا ہوا
ہم نے بھی خوابوں میں اپنا محل بنا رکھا ہے