رازداں ہوں میں آپ اپنے مہر و عشق کا
داستاں سناؤں خود کو بے کراں کروں کیوں کر
بیگانہ کر دیا اُس نے مجھ کو تنہا چھوڑ کر
آس چھوڑ دی میں نے خود کو پنہاں کروں کیوں کر
رازِ اُلفت ہے یہی کہ میرا گلشن اُجڑا
قُربِ تنہائی کا چمن پھر سُنساں کروں کیوں کر
بے بسی دیکھ میری زمانہ ہنستا مجھ پر
بے وفائی کے جہاں کو ویراں کروں کیوں کر
ستم ظریفی یاد ہے مجھے اس ستم گر کی
پھر سے کروں محبت خود کو بے زُباں کروں کیوں کر
ممکن ہے دغا ہو چوٹ لگے دل پے میرے
مر مر کے جیوں خود کو عُریاں کروں کیوں کر