اے زندگی تجھے ہی جی رہا ہوں بس
تیرے لمہوں کا ہے حساب درپیش
آنکھوں کے رستے آ دل میں سمو گئی
تیری یادوں کا ہے اضطراب درپیش
سوچ میں سینچ کر کھینچنا چاہا جب
تیری خشبوؤں کی ہے شراب درپیش
منِ التجا نے چاہا کہ تجھے دیکھے
تیری راہوں کی ہے گرداب درپیش
گر سامنے تُو آئے دلِ مضطرب کے
تیری نظروں کا ہے سراب درپیش
کچھ کہوں کہ من کی پیاس بُجھے
تیرے ہونٹھوں کا ہے جواب درپیش
باتِ من کہہ دوں کہ لب سِل گئے
تیری بے تابیوں کا ہے عذاب درپیش
چُپ رہا اگر تو تُو دیکھنا ساک
تیرے لفظوں کا ہے انکلاب درپیش