جو مل سکیں نہ کبھی ان کا راستہ کیسا
خزاں کے دور میں پھولوں کا قافلہ کیسا
لبوں کا کام نگاہوں سے کیوں نہیں لیتے
اثر جو کر نہ سکا پھر یہ سلسلہ کیسا
یہ کہنا رات گذرتی ہے اب بھی آنکھوں میں
تمہاری یاد کا قائم ہےواسطہ کیسا
یہ کہنا چاند اُترتا ہے بام پر اب بھی
مگر نہیں وہ شبِ ماہ کا مزا کیسا
معیار پیسہ ہو توقیر آدمی کے لیے
تو مفلسوں کی زمانے میں بھی پانا کیسا
جگر کا خون بھی دینے سے کچھ نہیں حاصل
شجر سے ٹوٹی ہوئی شاخ پہ آسرا کیسا
جدائی اسکی مجھے صحرا سمت لے آئی
اٹک کے رہ گیا پلکوں پہ خواب سا کیسا
میں کیوں نہ مانگ لوں صحرا کی ریت سے پانی
جو پیاس اور بڑھا دے پھر تو یہ وشمہ کیسا