میں نے بھی جو سونے کی اداکاری نہیں کی
اِس آنکھ نے خوابوں کو سند جاری نہیں کی
زہریلے ہیں کچھ سانپ سے بڑھ کر کیا بولوں
ہے کون وہ جس نے بھی ریاکاری نہیں کی
احباب سے میرا بھی یہ شکوہ تو بجا ہے
اک بار بھی چاہت سے گرفتاری نہیں کی
بازار میں بکتی ہی نہیں یار محبت
کیوں سوچتا رہتا ہے خریداری نہیں کی
اس خواہشِ ہستی میں جلا عشق کا جنگل
اپنوں نے کبھی دل سے ہی دلداری نہیں کی
مدت سے مری آنکھ میں ٹھہرا رہا وشمہ
دریا نے سمندر کی طرفداری نہیں کی