یا تو جینے سے ڈر گیا ہوں میں
یا حقیقت میں مر گیا ہوں میں
مجھ سے ڈرتے ہیں اب در و دیوار
بعد مدت جو گھر گیا ہوں میں
اب نہ سوچوں گا بات طے کی تھی
بات کر کے مکر گیا ہوں میں
موت سے ہے نباہ کی امید
زندگی سے تو ڈر گیا ہوں میں
عکس اس کا بنا کے کاغذ پر
رنگ لفظوں میں بھر گیا ہوں میں
میں کہانی میں لوٹ آونگا
یہ نہ سمجھو کہ مر گیا ہوں میں
بحر غم دیکھ تو ترے اندر
موج بن کر اتر گیا ہوں میں