وحشت زدہ مکان کی چوکھٹ پہ ہوں کھڑا
ویراں زندگی کی سند مجھ کو بھی ہو عطا
مجھ کو بھی میرے ہم نوا کچھ یوں رہائی دے
ٹوٹے کبھی جو دل پہ، برسات یوں دِکھا...
آنکھوں میں چمکتے ہیں جگنو کے کئی رنگ
اِک روز اِنہیں بخش دے ستاروں سی ہوا...
دیوار و در نے جس کے لیے ہجر ہیں کاٹے
احساسِ ندامت سے ہے وہ دور جا رہا...
وحشت سے در و بام میرے ہیں بند پڑے
وحشت زدہ مکان سے کر دے مجھے رِہا....
آرزوِ لا حاصل دلوں میں رہ گئ عیناٌ
اے وصلِ یار سے ملنے کی تدبیر تو بتا...